بجلی کے بھاری بلوں نے عوام کا جینا محال کر دیا، ریلیف کیسے دیا جائے؟

281
electricity bill

لاہور: اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام شدید مہنگائی کا شکار ہیں، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں جہاں سپلائی اور قیمت دونوں طرح کے مسائل کافی زیادہ ہیں۔ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔

کسی حد تک دو عوامل اِن مسائل کے بنیادی ذمہ دار ہیں جیسا کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے بجلی بنانے کیلئے مہنگے ایندھن کی درآمد اور روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مقامی سطح پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ۔ اب یہ مسائل ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔

اس سارے عمل میں متوسط ​​طبقہ خاصی تکلیف میں ہے اور وہ لڑھک کر غریب طبقے میں آن شامل ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہا اور آئندہ مہینوں میں متوسط طبقے کے مزید خاندان مہنگائی اور کم آمدن کی وجہ سے زیریں طبقے میں آنے والے ہیں۔ اس صورت حال میں پالیسی ساز اور منتظمین مخمصے میں ہیں کہ کریں تو کیا کریں؟ یا شائد انہیں اس کی پرواہ ہی نہ ہو۔

بہت سے طویل المدتی حل ہیں جن پر اکثر تبادلہ خیال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہاں کچھ ایسے اقدامات اور سفارشات کا ذکر کریں گے جن سے لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت حکومت کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ لاگت کو صارفین سے مکمل طور پر وصول کرنا لازم قرار پایا ہے حالانکہ کراس سبسڈی کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس بات کی ایک حد ہوتی ہے کہ امیر صارفین کی کیٹگری میں کتنا بوجھ منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اگست میں بجلی کے بلوں سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر صارفین کو بجلی فی یونٹ 60 روپے میں پڑ رہی ہے۔ عمومی طور پر بجلی کی قیمتیں دُگنی کر دی گئی ہیں اور گیس کی قیمتیں بھی اسی کے مطابق ہوں گی۔ بجلی اور گیس کے نرخوں کا مسئلہ یہ ہے کہ بہت زیادہ اوور ہیڈز ہیں جو بنیادی قیمت میں اضافے کے تناسب سے بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ اوور ہیڈز جیساکہ فیول سرچارج ضروری ہیں اور بنیادی ٹیرف کا حصہ ہیں لیکن اس کے علاوہ دیگر چارجز بھی ہیں جنہیں جزوی کم یا مکمل ختم کیا جا سکتا ہے۔

جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) بجلی اور گیس کے نرخوں پر 17.5 فیصد کی شرح سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز پر جی ایس ٹی لگایا جاتا ہے لیکن بہت سے شعبے جی ایس ٹی سے بچائے جا سکتے ہیں۔ دراصل یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا معیشت پر غیرصحت مند اثر پڑتا ہے لیکن اسے دستاویزی معیشت کیلئے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ہم یہاں بجلی کے ٹیرف پر جی ایس ٹی کے اثرات کی بات کریں گے۔

جی ایس ٹی بجلی اور گیس کے بلوں میں بہت زیادہ اوور ہیڈز کا اضافہ کرتا ہے، پہلا مسئلہ تو اس کی بلند ترین شرح ہے جو 17.5 فیصد ہے۔ پورے آسیان خطے کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں جی ایس ٹی کی شرح 10 فیصد یا اس سے کم ہے۔ اُن ممالک میں ویتنام، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا شامل ہیں۔

یہاں تک کہ جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی جی ایس ٹی کی شرح 10 فیصد ہے۔ چین میں جی ایس ٹی کی شرح 13 فیصد ہے۔ پاکستان کو 17.5 فیصد کی بلند ترین جی ایس ٹی کی شرح وصول کرنے میں مغربی یورپ اور امریکا کی نقل کیوں کرنی چاہئے؟

آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق توانائی کا ٹیرف کو سپلائی کی لاگت (cost of supply) کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ گردشی قرضے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم آئی ایم ایف حکومت پر ٹیکس کے دائرے سے باہر لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے پر زور ضرور دیتا ہے لیکن اس نے جی ایس ٹی کو زیادہ سے زیادہ رکھنے کے حوالے سے کوئی شرط نہیں رکھی۔

شعبہ توانائی سے جی ایس ٹی مکمل ختم یا پھر کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ملک ہنگامی حالات سے گزر رہا ہے۔ عوام بدترین اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔ ناقابل برداشت حد کو پہنچا ہوا پاور ٹیرف ناصرف بجلی چوری بلکہ بلوں کی عدم ادائیگی جیسے مسائل کا در کھولے گا اور عوامی احتجاج کو دیکھ کر ایسے اشارے مل بھی رہے ہیں۔

اگر بجلی اور گیس کے شعبے پر جی ایس ٹی 5 فیصد سے 10 فیصد تک کر دیا جائے تو عوام کا بوجھ کسی قدر کم ہو سکتا ہے۔ جی ایس ٹی میں یہ کمی تمام صارفین یا لازمی طور پر کم آمدن  والے طبقے کیلئے ضرور ہونی چاہیے شاید آئی ایم ایف بھی ’سبسڈی‘ کی یہ تجویز قبول کر لے۔

بلوں کی تاخیر سے ادائیگی پر سرچارج بھی 10 فیصد سے زائد ہے۔ یعنی اگر کوئی بجلی بل کی ادائیگی میں ایک دن کی تاخیر کرتا ہے تو وہ بل کی رقم کا 10 فیصد ادا کرے گا۔ موجودہ مشکل معاشی حالات میں صارفین کیلئے یہ مسئلہ مزید تکلیف دہ بن چکا ہے کیونکہ اکثر علاقوں میں بجلی کا بل مہینے کے وسط یا آخر میں بھیجا جاتا ہے اور تب تک کئی محکموں میں تنخواہیں نہیں ملی ہوتیں جس کی وجہ سے بل ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے۔

اپنی حالیہ سماعت میں نیپرا نے اس معاملے کا جائزہ لیا تاہم یہ معلوم نہیں کہ کوئی رعایت دی گئی یا نہیں۔ حکومت کو اسے سود کی شرح کے مطابق کم کرنا چاہیے جو اَب بھی 2 فیصد ماہانہ یا اس سے کچھ زیادہ ہیں۔ تاخیر سے ادائیگی پر سرچارج پہلے مہینے کے لیے 2 فیصد اور مزید تاخیر پر زیادہ ہو سکتا ہے۔

پھر ملک میں بجلی اور گیس تک عوام کی آسان رسائی کا مسئلہ بھی ہے جو ناصرف اُن دونوں کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ عوام کے معیار زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ملک میں 70 فیصد آبادی کو بجلی تو میسر ہے لیکن گیس بہ مشکل 25 سے 30 فیصد گھرانوں کو میسر ہے۔ نتیجتاً ایسے علاقوں میں بھی گیس لائن بچھانے کیلئے سیاسی دباؤ ہوتا ہے جہاں یہ معاشی طور پر موثر نہ ہو جس کی وجہ سے مجموعی طور پر اوسط لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہمارے پالیسی سازوں نے ہمیشہ بائیو گیس کو نظر انداز ہے حالانکہ ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے روبہ زوال ہیں۔ بائیو گیس دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہوتی ہے اور عالمی منڈی میں اِس کی فروخت 75 ارب ڈالر ہے۔

ایل پی جی کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ قدرتی گیس سے محروم دیہات میں لوگ اکثر ایل پی جی سلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ بائیوگیس اوسط رمیانی قیمت والا توانائی کا ذریہہ ہے۔ یہ مائع اور ٹھوس فضلہ سے تیار کی جاتی ہے جو خاص طور پر دیہی علاقوں میں وافر مقدار میں دستیاب ہے۔

پلاسٹک کے سلنڈروں والے بائیو گیس جنریٹر اِن دنوں عام دستیاب ہیں۔ ایک عام پلمبر ہارڈ ویئر کی دکان سے سامان خرید کر چند گھنٹوں میں بائیوگیس یونٹ بنا سکتا ہے۔ اس کی لاگت 20 ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ اس میں ایندھن کی لاگت شامل نہیں۔ جانوروں کا فضلہ اور گھریلو سبزیوں اور کھانے کی باقیات کو بائیو گیس بنانے والے یونٹ میں بطور خام مال استعمال کیا سکتا ہے۔

اس کا ایک اضافی فائدہ یہ ہے کہ دیہات میں درختوں کی کٹائی میں کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ چھوٹے کاشتکار مفت کھاد حاصل کر سکتے ہیں جو ایک ضمنی پیداوار کے طور پر تیار ہو گی۔ حکومت بائیو گیس پر سبسڈی دینے اور اسے مقبول بنانے پر غور کرے تو شعبہ توانائی پر بوجھ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ چند ہزار روپوں کی لاگت والے بائیو ماس چولہے خواتین کی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔ یہ دھوئیں کے بغیر جلنے والے چولہے ہیں جو پروسیس شدہ بائیوماس کو جلا کر آگ پیدا کرتے ہیں۔

تاہم اِن تمام منصوبوں کیلئے سرکاری سرپرستی، مالی وسائل، تشہیر اور آگہی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے صارفین پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے ہنگامی طور پر توانائی کے شعبے میں جی ایس ٹی اور دیگر نامناسب ٹیکسوں کا خاتمہ یا کمی کرے اور توانائی کے متبادل ذرائع کیلئے عوام کو سہولیات دے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here