لاہور: نئے نگراں وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے اقتدار کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پہلا کام ادویات کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے کر کیا ہے۔
22 اگست 2023 کو ہونے والے اجلاس میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے سربراہ عاصم رؤف نے تفصیلی بریفنگ میں وزیر صحت ندیم جان، سیکرٹری صحت افتخار شلوانی اور ایڈیشنل سیکرٹری کامران رحمان کو ڈریپ کو درپیس مختلف مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا اور جامع اور مربوط حکمت عملی اپنا کر بطور ریگولیٹر ڈریپ کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور ادویات کی برآمدات کو دوگنا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاحال پاکستان سے ادویات کی برآمدات 71 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سالانہ ہیں۔
نگران وزیر صحت نے ڈریپ سربراہ کو ہدایت کی کہ ادویات کی مصنوعی قلت سے نمٹنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں اور غیر رجسٹرڈ یا جعلی ادویات کی فروخت کے خلاف ملک گیر حکمت عملی مرتب کی جائے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ڈریپ ایک موبائل ایپلی کیشن شروع کرے جہاں شہری اور خوردہ فروش جیو ٹیگنگ کے ذریعے ادویات کی کمی کی اطلاع دے سکیں گے اور اس کے بعد ڈریپ اس مسئلے کو حل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
جون 2023 میں ڈریپ کے ایک افسر نے سیکرٹری صحت کو خط لکھا تھا جس میں الزام لگایا گیا کہ سی ای او ڈریپ عاصم رؤف ایک بے نامی فارماسیوٹیکل کمپنی چلا رہے ہیں۔ ایک انگریزی روزنامہ میں شائع رپورٹ کے مطابق وزارت قومی صحت نے حال ہی میں عاصم رؤف سے اختیارات کے غلط استعمال اور ایس او پیز کی سنگین خلاف ورزیوں پر وضاحت طلب کی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے بھی عاصم روؤف کو اُن کی مبینہ بے نامی دواساز کمپنی میسرز زیٹا فارما سے متعلق 24 سوالات بھیجے ہیں۔ یہ ڈریپ کے ایک ملازم کی طرف سے سیکرٹری ہیلتھ کو لکھے گئے خط میں عاصم رؤف کی جانب سے ملازمین کے ساتھ بدتمیزی اور بداخلاقی پر مبنی رویہ اختیار کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
اگرچہ ڈریپ سربراہ نے یقین دہانی کرائی کہ مذکورہ الزامات فضول ہیں تاہم پھر بھی نگران وزیر صحت سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئے اُن کی اہلیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔
ادویات کی قلت کی مختصر تاریخ
گزشتہ برس جب پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی پیناڈول کی قلت ہوئی اور یہ مسئلہ میڈیا پر نمایاں ہوا تو اُس وقت کے وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے سرِعام الزام لگایا کہ فارما کمپنیاں مذکورہ دوا کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں اور ڈریپ کو ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافے سے زائد قیمتیں بڑھانے پر مجبور کر رہی ہیں۔ بعد ازاں غیرقانونی چھاپہ مار کر ایک فارما کمپنی کے گودام سے پیناڈول کے کئی کارٹن برآمد کئے گئے۔
ادویات کی مصنوعی قلت کو سمجھنے کیلئے یہی ایک مثال کافی ہے۔ یہ بڑی فارما کمپنیوں اور ڈریپ کے مابین نہ ختم ہونے والی لڑائی کی تاریخ ہے۔ ایک دوسرے پر قیمتوں میں جائز اضافہ نہ کرنے، ادویات کی ذخیرہ اندوزی اور رسد کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
نومبر اور دسمبر 2022ء میں بھی مارکیٹ میں درد کش ادویات، انسولین، آئی ڈراپس، پیرا سیٹامول اور اس کی مختلف اقسام کی قلت ہو گئی۔ تاہم گراں فروشوں اور تاجروں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلیک مارکیٹ پروان چڑھ رہی ہے اور وہاں ادویات دوگنی سے بھی زائد قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں۔
جنوری 2023 میں لیٹر آف کریڈٹ کے نہ کھلنے کے باعث یہ مسئلہ مزید بڑھ گیا اور ملک بھر میں جان بچانے والی ادویات کی کمی خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے انتہائی اہم شعبوں کے لیے ایل سی کھولنے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے باوجود بینکوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے جواب میں دوا ساز کمپنیوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ دواسازی کا عمل معطل کرنے پر مجبور ہوں گے۔
7 فروری 2023 کو ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ایک نمائندہ تنظیم فارما بیورو نے وفاقی وزارت صحت کو خط لکھا جس میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں ہونے والے اضافے سے نمٹنے کے لیے قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کی درخواست کی گئی۔ فارما بیورو نے دعویٰ کیا کہ پیداواری لاگت میں 60 فیصد اضافہ ہوا اس لیے ادویات کی قیمتیں بھی اسی تناسب سے بڑھائی جانی چاہیں۔ یہ یقیناََ دواسازی کی صنعت کے لیے مشکل وقت تھا کیونکہ انہیں بگڑتی ہوئی معیشت کے حوالے سے کئی رکاوٹوں کا سامنا تھا۔
مارچ میں کمپنیوں اور وفاقی وزارت صحت کے درمیان قیمتوں پر ایک بار پھر تنازع پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے زندگی بچانے والی درآمدی دوائیں بندرگاہ پر رُکی رہیں جس سے مارکیٹ میں رسد کی مصنوعی قلت پیدا ہو گئی۔ حکومت نے کمپنیوں کی جانب سے قیمتوں میں 38 فیصد اضافے کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے بھی روپے کی قدر میں کمی اور پیداواری لاگت میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے حکومتی رویے پر احتجاج کیا اور ادویہ ساز یونٹ بند کرنے کی دھمکی دے دی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اس صنعت سے وابستہ افراد کا روزگار متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
16 اگست کو ڈریپ نے وزارت صحت کو ایک سمری بھیجی جس میں دواؤں کی قیمتوں میں ایک اور اضافے مطالبہ کیا گیا تاہم عبدالقادر پٹیل جو اُس وقت وزیر صحت تھے، انہوں نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ ایک ہفتہ سے زائد عرصہ گزرنے پر 24 اگست کو ڈریپ نے زندگی بچانے والی 25 ادویات کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت مقرر کی اور فارما کمپنیوں کو یہ تجویز بھی دی کہ وہ اپنا زیادہ تر خام مال چین سے درآمد کرنا شروع کر دیں۔
پاکستان میں ادویات کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے بہت زیادہ ہیں کیونکہ ان میں سے زیادہ تر بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ عاصم رؤف کس طرح فارماسیوٹیکل مصنوعات کی برآمد کو “دوگنا” کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔