لاہور: سابق وزیراعظم وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی کامیابیوں کی توصیف اور طرز حکمرانی کا دفاع کرتے ہوئے 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر اپنے عہدہ سے الوداع کہا اور اقتدار عبوری حکومت کو سونپ دیا۔
اپنی الوداعی تقریر میں شہباز شریف نے کہا کہ وہ آئینی طریقہ کار کے مطابق اقتدار میں آئے اور آئینی اصولوں کے مطابق حکومت سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ نگران وزیراعظم ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزاد انتخابات کے انعقاد کی ضمانت دیں گے۔
اس کے ساتھ ہی شہباز شریف نے معیشت کو ’مستحکم‘ کرنے کا سہرا اپنی حکومت کے سر باندھتے ہوئے کہا کہ وقت اور ریکارڈ گواہ رہیں گے کہ ’’ہم نے ملک کو ممکنہ دیوالیے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے بچایا۔‘‘ اس کیلئے انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ عارضی قرض معاہدے کا حوالہ بھی دیا۔
لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کی زبوں حال معیشت کو ’مستحکم‘ کرنے کے حوالے سے شہباز شریف کے دعوئوں میں کتنی سچائی ہے۔
اپریل 2022ء میں شہباز شریف کے پاکستان کے 31ویں وزیراعظم کے طور پر منتخب ہونے کی خبر کو برطانوی اخبار دی گارڈین نے شائع کیا تھا اور خبر کی سرخی کچھ یوں جمائی تھی ’’شہباز شریف: ایک محنتی منتظم اَب پاکستان کے وزیر اعظم‘‘
یہ سرخی اُس شہرت کی عکاسی کرتی ہے جو شہباز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر کمائی۔ پنجاب میں کئی بڑے ترقیاتی منصوبے اُن کے کریڈٹ پر ہیں جو ایک اچھے منتظم کے طور پر اُن کی شاندار صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
تاہم پنجاب کے سماجی و اقتصادی منظرنامے کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ تعلیم اور صحت کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں پر شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہی اندازہ ٹھوس اور قلیل مدتی حل کے ساتھ بنیادی کمزوریوں پر نظر ڈالنے کے پرانے سیاسی حربے کو بے نقاب کرتا ہے۔
اس سیاق و سباق کے پس منظر کو یہ سمجھنے کے لیے یاد رکھنا ضروری ہے کہ کچھ پالیسی ساز اور ماہرین اقتصادیات پاکستان کے ڈیفالٹ کے حقیقی خوف کو روکنے میں شہباز شریف کی کامیابی کی تعریف کیوں نہیں کر رہے۔
وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی شہباز شریف کو پہلی مشکل یہ درپیش تھی کہ ملک پر دیوالیے کے بادل منڈلا رہے تھے کیونکہ اگلے مالی سال کے لیے بیرونی قرضے 25 ارب ڈالر تک بڑھ گئے، زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 4.1 ارب ڈالر تک گر چکے تھے۔ اگر دیوالیہ ہو جاتا تو پاکستان ایک مکمل اقتصادی بحران کا شکار ہو جاتا جس میں خوراک، ادویات، ایندھن اور یہاں تک کہ نقدی کی شدید قلت پیدا ہو جاتی۔ لہٰذا جب پی ڈی ایم حکومت کامیابی کے ساتھ آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، بشمول جون میں تقریباً 1.2 ارب ڈالر کی فوری تقسیم، شہباز نے اپنے کریڈٹ میں ایک اور اعزاز کا اضافہ کر لیا۔
تاہم یہ کامیابی چند لوگوں کے لیے سطحی ہو سکتی ہے۔ کیا ہمیں واقعی شہباز شریف کی کامیابی کی تعریف کرنی چاہیے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد ہونے والے واقعات نے معیشت کو تباہی سے دوچار کر دیا تھا۔ امریکی ڈالر کے مقابلے روپیہ 2 فیصد گر کر انٹربینک مارکیٹ میں کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام جو 2019 میں پی ٹی آئی حکومت نے لیا تھا، اس وقت کی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ایندھن پر سیاسی سبسڈی کی وجہ سے فوری طور پر روک دیا گیا تھا۔
تاہم شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت کی پالیسیوں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالات آسانی سے بہتر نہیں ہو سکتے۔ سب سے پہلے معاہدے کی بحالی کے بعد نویں اور دسویں جائزے میں تقریباً 8 ماہ کی تاخیر ہوئی، جس کی وجہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیاں تھیں، جنہوں نے ابتدائی مہینے آئی ایم ایف کیخلاف بیان بازی میں ضائع کر دیے۔
تاہم جب اسحاق ڈار پاکستان کے بڑھتے ہوئے اقتصادی مسائل کا حل تلاش کر رہے تھے، اسی وقت شہباز حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کا عارضی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
خیبرپختونخوا کے سابق وزیر خزانہ تیمور جھگڑا اسحاق ڈار کے ’’ٹنل وژن‘‘ کے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اگر یہ معاہدہ 8 یا 9 ماہ پہلے ہو جاتا تو معاشی پریشانی کہیں کم ہوتی۔ اس کے بجائے پاکستان نے خاموشی سے یہ وقت ضائع کر دیا حالانکہ صنعتوں کی پیداواری صلاحیت گر رہی ہے، زرمبادلہ ذخائر ختم ہو رہے تھے اور کرنسی بدترین گراوٹ کا شکار تھی۔‘‘
مزید برآں رائے دہندگان کی حمایت اور عوامی پذیرائی حاصل کرنے کے لئے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرنے کے بھی سنگین اثرات مرتب ہوئے۔ اپریل میں اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز دی تھی تاہم سابق وزیراعظم شہباز شریف نے یہ تجویز کو اس بنیاد پر مسترد کر دی کہ مہنگائی میں پستے عوام سے حکومت کو گالیاں پڑیں گی۔ اس تجویز کو مسترد کر کے شہباز شریف کی عوامی طور پر پسندیدہ بننے کی خواہش کے نتیجے میں سرکاری خزانے پر تقریباً 30 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔ مزید برآں دیگر فیصلوں جیساکہ سبسڈی کو کم کرنا اور اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ کے طور پر مقرر کرنے نے اس مشکل کو مزید گہرا کر دیا۔ ڈار ڈالر کی شرح مبادلہ پر قابو پانے کے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے، جب تک کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً مکمل طور پر ختم نہیں ہو گئے۔
جنوبی ایشیا اکنامک فوکس 2023 کے بارے میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے نتائج اس دلیل کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مسخ شدہ پالیسی اقدامات، شرح مبادلہ کی حد بندی، درآمدات پر کنٹرول اور آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام میں تاخیر۔ یہ وہ بنیادی عوامل تھے جو معاشی زبوں حالی کا بنیادی محرک تھے۔
پاکستان کو سماجی و اقتصادی تباہی کے ’’ڈومینو ایفیکٹ‘‘ سے بچانے کے لیے جہاں آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ درحقیقت ضروری تھا، وہیں شہباز شریف کا پاکستان کو بچانے کے لیے خود تعریف کرنا پرانے سیاسی ہتھکنڈوں کا ازسر نو اظہار ہے۔
گرے ہوئے کیک پر پکا ہوا پھل رکھ دینا کسی کی بھوک نہیں مٹا سکتا۔ شاید یہی وہ سبق ہے جو شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر اپنے مختصر عرصے کے تجربے سے سیکھ سکتے ہیں۔