اسلام آباد: مالی سال 2023ء کی آخری سہ ماہی کے دوران تیل صاف کرنے والے مقامی کارخانوں کا مجموعی ریفائننگ مارجن نمایاں طور پر کم ہو اوسطاً 4 ڈالر فی بیرل تک گر گیا۔
شیرمن سکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ کی رپورٹ کے مطابق یہ گزشتہ دو سالوں میں سب سے کم سہ ماہی مارجن ہے، مارجن میں تیزی سے گراوٹ نے خدشات کو جنم دیا ہے کہ متعدد تیل صاف کرنے والے کارخانوں کا مالی نقصان ہو سکتا ہے۔
یوکرین روس جنگ کے نیتجے میں عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی رسد میں کمی کے باعث گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے دوران مجموعی مارجن 22 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا تاہم مالی سال 2023ء میں اپریل سے جون کی سہ ماہی کے دوران عالمی سطح پر خام تیل اور اس کی مصنوعات کی منڈی میں اتار چرھائو جاری رہا۔ عرب لائٹ خام تیل کی قیمتوں میں 3 فیصد جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں امریکی ڈالر کے لحاظ سے 4 فیصد سے 25 فیصد تک کمی واقع ہوئی جو پاکستان میں تیل صاف کرنے کے کارخانوں کیلئے مارجن میں کمی کا سبب بنا۔
گراس ریفائنری مارجن (جی آر ایم) کیا ہے؟
یہ ایک اہم مالیاتی اشاریہ ہے جو کسی ریفائنری کے منافع کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسے ریفائنری کی پروڈکٹس کی فروخت سے ہونے والی آمدن اور لاگت کے فرق سے ماپا جاتا ہے۔
اس مارجن سے بنیادی طور پر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ریفائنری نے پروسیسنگ کے ذریعہ کتنی ویلیو ایڈیشن کی۔ گراس مارجن اچھا ہو تو پتہ چلتا ہے کہ ریفائنری کو خام تیل کے ہر بیرل کو صاف کر کے پٹرولیم مصنوعات میں تبدیل کرنے کے عوض اچھا منافع کمانے کے قابل ہے۔
آگے کیا ہو گا؟
مالی سال 2024 کا آغاز تیل کے مقامی کارخانوں کے لیے کچھ امید افزاء ہے کیونکہ نئے مالی سال کے پہلے چند مہینوں کے دوران گراس ریفائننگ مارجن میں معمولی بہتری آئی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے انوینٹری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس سے اس صنعت کیلئے کسی قدر اطمینان کا سامان ہو سکتا ہے۔
ان حوصلہ افزا اشاریوں کے باوجود گزشتہ سہ ماہی سے ریفائنریز کا مارجن 4 ڈالر فی بیرل ہے جو لاگت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ خام تیل کو صاف کرنے کی لاگت 4 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر جاتی ہے جس سے ریفائنری کو نقصان ہوتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ موجودہ مارجن پر ریفائنریز کو پروسیسنگ لاگت کی وصولی کیلئے مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مجموعی پیداوار کے حوالے سے مختلف ریفائنریز کیلئے مارجن میں فرق ہو۔ اس صنعت سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ کچھ منافع کمانے کیلئے ریفائننگ مارجن 5 ڈالر سے 6 ڈالر فی بیرل ہونا چاہیے۔
’’کریک سپریڈ‘‘ میں بھی ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ خام تیل کے ایک بیرل اور اس سے بننے والی پٹرولیم مصنوعات کے درمیان قیمتوں کا مجموعی فرق کتنا ہے۔ اسے آپ اس صنعت کیلئے مخصوص پروسیسنگ مارجن سمجھ لیں۔
کریک سپریڈ میں کمی کے علاوہ ڈیزل، جیٹ فیول اور خام تیل کے درمیان قیمتوں کے فرق نے ریفائننگ مارجن کی کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سہ ماہی بنیادوں پر ڈیزل اور جیٹ فیول کی خام تیل سے قیمتوں میں فرق کے پھیلاؤ میں جو کہ مقامی ریفائنریوں کی پروڈکٹ سلیٹ کا تقریباً 49 فیصد حصہ ہے، کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔ ڈیزل کا پھیلاؤ مالی سال 2023 کی تیسری سہ ماہی میں اوسطاً 30 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر تقریباً 14 ڈالر فی بیرل ہو گیا، جس سے ہائی سپیڈ ڈیزل کی عالمی مانگ میں نمایاں کمی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح، جیٹ ایندھن کا پھیلاؤ امریکی ڈالر 46 سے کم ہو کر تقریباً 17 امریکی ڈالر فی بیرل رہ گیا۔
اس کی وجہ سے، کچھ ریفائنریزمالی سال 2023 کی چوتھی سہ ماہی میں جی آر ایم میں کمی کی وجہ سے نقصان کا سامنا کر سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستانی روپیہ نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اوسطاً 9 فیصد سہ ماہی کے حوالے سے کی قدر میں کمی سے زر مبادلہ کا نقصان دیکھا، جس کے نتیجے میں نقصانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور آخر کار مالی سال 2023 کے لیے سپر ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا اثر، مقامی ریفائنریز کے لیے آخری دھچکا ثابت ہوا۔
تجزیہ کاروں کی توقع ہے کہ اٹک ریفائنری (اے ٹی آر ایل) فی شیئر 4 روپے کمائے گی، پوری سہ ماہی میں ریفائنری کے استعمال کی شرح تقریباً 80 فیصد اور اوسط جی آر ایم تقریباً 10 امریکی ڈالر فی بیرل ہے۔ تاہم، اضافی ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ ممکنہ انوینٹری اور ایکسچینج کے نقصانات کا اثر آمدنی پر پڑ سکتا ہے۔
پاکستان ریفائنری (پی آر ایل) کو بھی مشکلات کا سامنا کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس میں مالی سال 2023 کی چوتھی سہ ماہی کے لیے 2.8 روپے فی شیئر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کارپوریشن کے لیے 2 ڈالر فی بیرل پر کم مارجن، نیز اہم زر مبادلہ اور انوینٹری کے نقصانات، اس منفی مالیاتی تصویر کے کلیدی محرک ہونے کا امکان ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پی آر ایل 75 فیصد صلاحیت کے استعمال پر کام کرتی ہے، اس کی خام کھپت کا 80 فیصد مشرق وسطیٰ سے آتا ہے اور بقیہ روسی تیل سے آتا ہے، جو مالی سال کے اختتام تک کم سی ای آر قیمت پر حاصل کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق مقامی ریفائنریز اپنے مالی حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہیں اور GRMs اور مارکیٹ میں موجود دیگر رکاوٹوں کو دور کرنے کے حل پر غور کر رہی ہیں۔