لاہوریوں کو نیا بحران درپیش، پانی کی آلودگی خطرناک حد کو چھونے لگی

331

لاہور: صوبائی دارلحکومت کے تباہ حال انفراسٹرکچر، غیر معیاری آب و ہوا، جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور طرز حکمرانی کے مسائل کے بارے میں آپ خبروں میں سنتے رہتے ہیں۔ اَب ایکشن ریسرچ کولیکٹو (اے آر سی) نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں لاہور کو درپیش ایک نئے بحران یعنی پانی کی بڑھتی ہوئی آلودگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ایکشن ریسرچ کولیکٹو (اے آر سی) ماحولیاتی انصاف فراہم کرنے اور اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس ادارے نے لاہور میں گھریلو استعمال کے پانی میں آلودگی کی سطح اور مضرصحت اجزاء کی خصوصیات پر تحقیق کی ہے بالخصوص پینے کے پانی میں ایسے کیمیائی اجزاء اور جرثوموں کی نشاندہی کی گئی ہے جو انسانوں اور ماحول دونوں کیلئے مضر اثرات رکھتے ہیں۔

اس تحقیق کیلئے لاہور میں 850 منتخب مقامات کا دورہ کرکے 700 مقامات سے پانی کے نمونے اکٹھے کئے گئے اور مستند لیبارٹریوں میں جانچ کے بعد سامنے آنے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ شہر میں چھ مقامات پر پانی میں ای کولی بیکٹریا موجود تھے، جن علاقوں کے پانی میں یہ بیکٹیریا پائے گئے ان میں چونگی امر سدھو، چڑاڑ، کریانوالہ، کھراس محلہ، مصطفیٰ آباد اور کوٹ خواجہ سعید شامل ہیں۔

پانی میں ای کولی بیکٹریا کی موجودگی سیوریج، انسانی یا حیوانی فضلے کی شمولیت کی نشاندہی کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ ان چھ مقامات پر زیادہ تر گھروں کو فراہم کیے جانے والے پانی میں مضرِ صحت بیکٹیریا اور آلودہ اجزاء موجود ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کھراس محلہ کے گھروں سے 51 نلوں سے جو پانی کے نمونے اکٹھے گئے اُن میں سے 32 فیصد کولیفارمز (coliforms) بیکٹیریا سے آلودہ تھے جس کا مطلب ہے کہ پانی میں انسانی فضلہ شامل ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آلودہ پانی والے اِن علاقوں کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد اسہال اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے اور سب سے زیادہ شرح تقریباََ 81 فیصد مصطفیٰ آباد میں ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک اور سنگین بحران یہ درپیش ہے کہ لاہور کے علاقہ شادی پورہ میں پانی میں سیسے کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ شادی پورہ صوبائی دارالخلافہ کے امراء کے پرتعیش رایا گالف ریزورٹ سے محض 26 منٹ کی دوری پر واقع ہے اور اس علاقہ کے رہائشی سیسہ ملا زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہ لاہور کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر طبقات کے طرزِ زندگی کے درمیان گہرے تفاوت اور تفریق کا واضح ثبوت ہے۔

2016 میں پنجاب حکومت کے محکمہ قانون و پارلیمانی امور نے قرار دیا تھا کہ پینے کے پانی میں سیسے کی مقدار 50 مائیکروگرام فی لٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم ایکشن ریسرچ کلیکٹو نے وضاحت کی ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے نزدیک پینے کے پانی میں سیسے کی محفوظ مقدار محض 10 مائیکرو گرام فی لٹر ہے جبکہ ادارہ برائے تحفظِ ماحولیات پنجاب اور پنجاب حکومت کا خیال ہے کہ یہ مقدار 50 مائیکرو گرام فی لٹر تک بھی ہو تو محفوظ ہے لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ شادی پورہ سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں میں سیسے کی مقدار فی لٹر 1550 مائیکروگرام پائی گئی۔

ایکشن ریسرچ کلیکٹو کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری پانی میں اس حد تک سیسے کی آلودگی سے حکومت کی لاعلمی مذکورہ علاقہ کے رہائشیوں کے ساتھ گھناؤنی ناانصافی ہے۔ شادی پورہ میں 48 فیصد بالغ مرد، 52 فیصد بالغ خواتین اور 10 سال سے کم عمر کے تمام بچوں میں سے 82 فیصد خون کی کمی کا شکار تھے۔ مزید برآں علاقے کی 36 فیصد خواتین نے مردہ بچوں کو جنم دیا جبکہ 10 فیصد نے بتایا کہ ان کے ہاں بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہوئی۔

ایکشن ریسرچ کلیکٹو کا اگلا مقصد لاہور بھر کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں سے پانی کے نمونوں کا مطالعہ کرنا ہے۔ شادی پورہ کے ساتھ ساتھ دیگر چھ ای کولی سے متاثرہ مقامات کا معاملہ بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت کی اس معاملے میں عدم دلچسپی نے لاہور میں صحت کے نظام کو تباہی سے دوچار کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم ماضی کی طرح اگر اس بار بھی حکومت نے آنکھیں بند رکھیں تو یاد رکھیں کہ آفات بے قابو ہو جائیں تو ان کے اثرات جلد ہی پورے خطے میں ہلچل پیدا کر دیتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here