اسلام آباد: اگرچہ اس سیزن کی چیری تقریباً ختم ہو چکی ہے اور اسے دوست ملک چین برآمد نہیں کیا جا سکا تاہم پاکستان نے چیری برآمد کرنے کیلئے چینی مارکیٹ تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
پاکستانی چیری کی چینی مارکیٹ تک رسائی کا مسئلہ دیرینہ تھا جو بالآخر 12 سال کے طویل انتظار کے بعد حل ہو گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مختلف ایجنسیوں اور محکموں کی اجتماعی کوششوں سے یہ ممکن ہوا۔
تفصیلات کے مطابق وزارت برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ماتحت محکمہ پلانٹ پروٹیکشن ( ڈی پی پی) نے اس پیشرفت میں اہم کردارادا کیا۔ کسٹمز چائنا کی جنرل ایڈمنسٹریشنز (جی اے سی سی) نے باضابطہ طور پر تصدیق کی ہے کہ پاکستان سے چیری اَب ڈی پی پی کے رجسٹرڈ باغات اور پیک ہاؤسز سے چین کو برآمد کی جا سکتی ہے۔ توقع ہے کہ اس پیشرفت سے پاکستانی چیری کی برآمد کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کی مجموعی ترقی میں خاطر خواہ اثر پڑے گا۔
اس اہم پیشرفت کے بعد متعلقہ سرکاری محکموں نے کسٹمز چائنا کی جنرل ایڈمنسٹریشنز کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے باغات، کولڈ ٹریٹمنٹ کی سہولیات اور پیک ہاؤسز کو اَپ گریڈ اور رجسٹر کرنے کی منظوری دی۔ فوڈ سیفٹی، فائٹو سینیٹری اقدامات، کوالٹی، سٹوریج اور پیکیجنگ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان میں کم از کم 90 چیری باغات اور 15 کولڈ ٹریٹمنٹ سہولیات اور پیک ہاؤسز کو اَب چین کو چیری برآمد کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
تاہم چین کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ چیلنج سے کم نہیں تھا۔ رواں برس یکم اپریل کو چین پاکستان سرحد کھولنے کے بعد چینی حکومت نے پاکستان سے چیری کی درآمد کی اجازت دے دی لیکن سخت فائٹو سینیٹری معیارات کی تعمیل میں مشکلات پیدا ہو گئیں۔ چینی سفارت خانے نے وزارت خوراک کو بتایا کہ جی اے سی سی پاکستان سے چین کو تازہ چیری کی برآمد کے لیے ان معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے ریموٹ ویڈیو تحقیقات کرے گا۔
تازہ پھلوں کے ایک سرکردہ برآمد کنندہ ذوالفقار مونین نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی چیری خصوصاً گلگت بلتستان کی چیری عام چیریوں سے زیادہ رسیلی ہوتی ہے لیکن اس کے خراب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ موجودہ فائٹو سینٹری اقدامات، جن میں چیری کو 18 دنوں سے زیادہ ایک ڈگری درجہ حرارت پر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، چیلنجنگ ثابت ہوئے۔ پروٹوکول کو پورا کرنے کے لیے درآمد شدہ چیری کے پودوں کی کاشت کی تجویز دی گئی کیونکہ وہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ پر تقریباً 25 دن کی طویل شیلف لائف کا حامل پھل پیدا کر سکتے ہیں تاہم گلگت بلتستان میں پیک ہاؤسز اور بڑے کولڈ سٹوریج کی کمی سے اس پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔
رکاوٹوں کے باوجود چیری کی صنعت میں ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ چین عالمی سطح پر چیری کا سب سے بڑا صارف ہے، اور چینی اور پاکستانی حکومتوں نے 2019ء سے پاکستان سے تازہ چیری کی برآمدات ممکن بنانے کیلئے ایک معاہدہ پر کام کیا ہے۔ برآمدی پروٹوکول میں سخت شرائط شامل ہے جو چیری کے باغات، پیکیجنگ پلانٹس اور یخ بستہ گوداموں کے مالکان پر لاگو ہوتی ہیں۔ چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے تحت پاکستان کی چیری پر صفر ٹیرف کے ساتھ پاکستان کی چیری صنعت میں مزید توسیع کے لیے کافی گنجائش موجود ہے۔
فی الحال صرف 10 فیصد چیری برآمد کے لیے دستیاب ہے لیکن چین کی جانب سے سالانہ 2 لاکھ ٹن سے زیادہ چیری درآمد کرنے کے ساتھ پاکستانی چیری کو چینی مارکیٹ میں داخل کرنے کی منظوری سے پاکستان کی مقامی چیری کی صنعت میں نمایاں ترقی کی حوصلہ افزائی متوقع ہے۔ حکومتی اداروں کے درمیان تعاون اور عالمی معیارات پر پورا اترنے کے عزم سے نہ صرف چیری کی برآمدات کو فروغ ملے گا بلکہ دیگر زرعی برآمدات کی تلاش کے دروازے بھی کھلیں گے، اور ظاہر ہے اس سے پاکستان کی معاشی خوشحالی میں مدد ملے گی۔