سٹارٹ اپ کی ناکامی انٹرپرینیور کو کیسے متاثر کرتی ہے؟ ایک بانی کے تاثرات

256

ائیرلفٹ کے بند ہو نے کے بعد ناکام سٹارٹ اپس اس ایکو سسٹم میں رسمی طور پر کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امان ناصر (سرمایہ کار)، کلثوم لاکھانی (i2iv) اور شہر یار حیدری (دیوسائی وینچرز) نے ناکامی کا شکار سٹارٹ اپس اور ان کے بانیوں کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے بہت درست نکات پیش کیے ہیں۔

ہمیں ان ناکامیوں کے پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پہلی بار ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ بنا جہاں بین الاقوامی اورعلاقائی وینچر کیپیٹلز نے دلچسپی لینا شروع کی۔ مگر پارٹی بہت جلد اختتام پذیر ہو گئی۔ زیادہ تر وینچر کیپیٹلز کو نئے فنڈز اکٹھا کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ ان کے پاس موجود فنڈز موجودہ پورٹ فولیو کمپنیوں کے لیے محفوظ کیے جا رہے ہیں۔

فنڈنگ ​​حاصل کرنے والے بہت سے سٹارٹ اپ خود کو مضبوط کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ایک جانب تو فنڈنگ ​​کے مواقع قلیل ہیں۔ تو دوسری طرف پرسنل فنانس مینجمنٹ کے حوالے سے مسائل کی شکار کمپنیوں کیلئے دوبارہ فنڈنگ حاصل کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر فنڈنگ ​​کے ماحول میں اتنی تیزی سے تبدیلی نہ آئی ہوتی تو کچھ سٹارٹ اپ جو ناکام ہو چکے ہیں یا اگلے 12 سے 18 مہینوں میں ناکام ہونے والے ہیں، یا تو بہتری کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنے کے قابل ہوتے یا پھر اپنی موت آپ مر جاتے۔ ناکامی سٹارٹ اپ ایکو سسٹم کا ایک لازمی حصہ ہے اور اس کے بانی یا تو بہت پیسہ کماتے ہیں یا کچھ قیمتی سبق سیکھتے ہیں۔ کامیابی ایک گھٹیا استاد ہے اور ناکامیاں آپ کو بہت زیادہ سبق سکھاتی ہیں۔

ناکامی کا ہمارے معاشرے میں پہلے سے ہی ایک انتہائی منفی مفہوم ہے۔ جب انٹرپرینیور اپنے آئیڈیاز پر کام شروع کرتے ہیں تو کئی طرح کی رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں۔ کچھ ملازمین کی طرف سے اور زیادہ تر سرمایہ کاروں کی جانب سے۔ انٹرپرینیور اپنا کیرئیر یا اچھی تنخواہ والی نوکری کو چھوڑ کر بازی کھیلتا ہے۔ ایسی مہم جوئی اور اس سے وابستہ غیریقینی صورتحال اور مسائل انسان کی ذہنی صحت پر تشویشناک اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تمام تر کوششوں اور تکالیف کے باوجود اگر یہ مہم جوئی ناکام ہو جائے تو ناکامی کے بعد لوگوں کی جانب سے کسی ممکنہ غلط کاری کے الزامات کا اضافی درد ایک ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی آخری انجام دے دوچار کر سکتا ہے۔

جیسا کہ بہت سے لوگوں نے نشاندہی کی ہے، یہ عوامی پیسہ نہیں ہوتا اور سٹارٹ اپ کے بانی کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ وہ اپنے صارفین، ملازمین اور سرمایہ کاروں کو جواب دہ ہوتے ہیں اور جب تک آپ ان میں سے ایک نہ ہوں، اس معاملے پر ادھورے فیصلے کرنے سے گریز کریں۔

ناکام سٹارٹ اَپ کے نتیجے میں ان کے بانیوں پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ انہیں جذباتی، مالی اور پیشہ ورانہ طور پر بہت نقصان ہوتا ہے جسے ٹھیک ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

سٹارٹ اپ کی  ناکامی کا جذباتی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ بانی ناصرف اپنا وقت، پیسہ اور کوشش اپنے منصوبوں میں لگاتے ہیں بلکہ اپنے خوابوں اور خواہشات کو بھی اس میں شامل کیا ہوتا ہے۔ جب ان کا منصوبہ ناکام ہو جاتا ہے تو وہ نقصان، مایوسی اور یہاں تک کہ شرمندگی کا تجربہ کرتے ہیں۔ دوسروں کی طرف سے فیصلے کا خوف اور حامیوں کو نیچا دکھانے کا احساس اضطراب اور افسردگی کا باعث بن سکتا ہے۔ نفسیاتی بوجھ بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔

سٹارٹ اپ کی ناکامی کے مالی مضمرات تباہ کن ہو سکتے ہیں، جس سے بانیان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ مالی بوجھ سٹارٹ اپ کے بانی سے آگے بڑھ کر ان کے خاندانوں اور رشتوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

عام طور پر ہمارے معاشرے کے رویے پر غور کرتے ہوئے ایک ناکام سٹارٹ اپ اپنے بانیوں کی پیشہ ورانہ ساکھ کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ممکنہ سرمایہ کار، شراکت دار اور آجر ناکامی کو بانی کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کی ناکامی کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ کاروباری برادری میں اعتماد اور ساکھ کی ازسرنو بحالی ایک مشکل عمل ہو سکتا ہے اور کچھ بانیوں کو مستقبل کے منصوبوں کے لیے نئے مواقع یا فنڈنگ ​​حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بہت سے بانیان کے لیے اُن کا سٹارٹ اپ ان کی شناخت کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ سٹارٹ اپ حلقوں میں میرا تعارف عام طور پر میرے سٹارٹ اپس کے نام سے ہوتا ہے۔ جب ہمارے سٹارٹ اپ اور ہمارے درمیان اتنا قریبی تعلق ہوتا ہے، تو منصوبے کی ناکامی شناخت کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

سٹارٹ اپ اور اس کے وژن کو چھوڑنا جذباتی طور پر پریشان کن ہو سکتا ہے، جس سے بانیوں کو زندگی میں اپنے مقاصد اور مقصد کی نئی وضاحت کرنا پڑتی ہے۔

سٹارٹ اپ کی کامیابی میں اکثر وقت اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، جو ذاتی تعلقات میں تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ سٹارٹ اپ کے بانی اپنے منصوبے کو کامیاب بنانے کی جستجو میں خاندان، دوستوں اور یہاں تک کہ ان کی اپنی بھلائی کو بھی نظرانداز کر سکتے ہیں۔ جب سٹارٹ اپ ناکام ہو جاتا ہے، تو ان تعلقات کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے، کیونکہ بانی قربانیوں پر جرم اور ندامت سے دوچار ہوتا ہے۔

ناکامی کا خوف ان فاؤنڈرز کے لیے ایک اہم رکاوٹ بن سکتا ہے جو نئے کاروباری منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ سٹارٹ اپ کی ناکامی کی تکلیف کا تجربہ کرنے کے بعد کچھ لوگ دوبارہ خطرہ مول لینے سے ہچکچاتے ہیں، چاہے ان کے پاس شاندار خیال اور ضروری مہارت ہو۔ یہ خوف ترقی اور تخلیقی صلاحیتوں کو روک سکتا ہے، بانیوں کو ان کی مکمل صلاحیتوں کا ادراک کرنے سے روکتا ہے۔

تکالیف اور چیلنجوں کے باوجود سٹارٹ اپ کی ناکامی بھی ایک قابل قدر استاد ہو سکتی ہے۔ جاؤنڈرز جنہوں نے طوفان کا سامنا کیا ہے وہ بہت سارے تجربے اور بصیرت حاصل کرتے ہیں جو مستقبل میں انمول ثابت ہوسکتے ہیں۔ لچک، موافقت، اور ناکامی سے سیکھنے کی صلاحیت وہ خصلتیں ہیں جوکامیابی کے لیے ایک فاؤنڈر کو راہ دکھا سکتی ہیں۔

سٹارٹ اپ کے بانی کا سفر کمزور دل والوں کے لیے نہیں ہے۔ اگرچہ کامیابی کی کہانیاں اکثر سرخیاں بنتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر سٹارٹ اپ ناکام ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے بانیوں کو نتائج سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ناکامی کا جذباتی، مالی اور پیشہ ورانہ نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے، اور ناکامی کو سمیٹنے اور آگے بڑھنے کے لیے خاصی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم جب کوئی شخص وینچر کو کھونے اور خاندان، دوستوں، ملازمین، سرمایہ کاروں، گاہکوں کو مایوس کرنے کی شرمندگی اور جرم کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہوتا ہے، رہی سہی کسرایسے لوگوں کی طرف سے بے بنیاد الزامات ہیں جنہیں آپ کی جدوجہد کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

تحریر: اویس زیدی

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here