پاکستان شعبہ توانائی میں بہتر پیداواری حکمت عملی کے ذریعے 8 ارب ڈالر کی بچت کر سکتا ہے: رپورٹ

177

اسلام آباد: ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان آئندہ ایک دہائی میں بجلی کی پیداوار کی بہتر حکمت عملی پر عمل درآمد کر کے 8 ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ بچا سکتا ہے۔

اسلام آباد میں قائم دو تحقیقی اداروں پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکویٹبل ڈویلپمنٹ (PRIED) اور ’’ری نیو ایبلز فرسٹ‘‘ نے مشترکہ طور پر تحقیقاتی کام کیا اور پاکستان کے شعبہ توانائی میں لاگت کی بچت کے ممکنہ مواقع پر روشنی ڈالی۔

سٹڈی میں حکومت کے تیار کردہ انڈیکیٹیو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان 31-2022 کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے تخمینوں میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ سٹڈی اس بات پر زور دیتی ہے کہ موثر منصوبہ بندی میں ناصرف بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا بلکہ بجلی کی ترسیل اور ترسیلی نظام کی توسیع بھی شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی توسیع کے بغیر پاکستان گزشتہ دہائی کے دوران اپنی حاصل کردہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کے ایک بڑے حصے کو مکمل طور پر استعمال کرنے سے قاصر رہا جس کے نتیجے میں بار بار بجلی کا بریک ڈاؤن ہوتا ہے۔

اس مطالعہ کے تخمینے انڈیکیٹیو جنریشن کپیسٹی ایکسپنشن پلان 2022-31ء سے نمایاں طور پر مختلف ہیں، خاص طور پر 2031 تک پاکستان کی توانائی مکس میں ہوا اور شمسی توانائی کے حصہ کے بارے میں۔ جبکہ مذکورہ پلان نے پیش گوئی کی گئی ہے کہ قابل تجدید توانائی کا حصہ 30 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ 47 فیصد ہو سکتا ہے۔ یہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع خاص طور پر ہوا اور شمسی توانائی کے زیادہ سے زیادہ شمولیت کے امکانات کو اجاگر کرتا ہے، تاکہ 2030 میں بجلی کی متغیر لاگت کو 10 فیصد سے زیادہ اور کم اخراج کو تقریباً 50 فیصد تک کم کیا جا سکے۔

پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکویٹیبل ڈویلپمنٹ کے سربراہ محمد بدر عالم نے ایک مضبوط ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ سسٹم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پیداواری صلاحیت میں اضافے کے فوائد کو حاصل کرنے کیلئے یہ ایک اہم عنصر ہے۔

ایک جرمن ریسرچ آرگنائزیشن Agora Energiewende سے نائلہ صالح نے بھی قابل تجدید توانائی کے انضمام کی اہمیت پر زور دیا تاکہ لاگت اور اخراج میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

مزید برآں، SDPI سے عبید الرحمان نے تجویز پیش کی کہ 2050 تک پوری معیشت کو ڈی کاربنائز کرنے کا مقصد نہ صرف پاکستان کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد دے گا بلکہ طویل مدتی اخراج میں کمی کے لیے ملک کی مکمل صلاحیت کو بھی کھولے گا۔

لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ سے عمر فاروق نے طلب اور رسد کے مطالعہ کے تنقیدی تجزیہ کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کی شمولیت اور اس سے منسلک چیلنجز کے درمیان گٹھ جوڑ پر زور دیا۔ مطالعہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے اور ملک میں مالیاتی اثرات کو کم کرنے میں توانائی کی بچت والی عمارتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

اس آزاد سٹڈی  کے نتائج پاکستان کے توانائی کے شعبے کے بارے میں قابل قدر بصیرت فراہم کرتے ہیں اور لاگت کی بچت اور پائیدار توانائی کی پیداوار کے لیے قابل عمل حکمت عملی پیش کرتے ہیں۔ ان سفارشات پر عمل درآمد ملک کے لیے زیادہ موثر اور ماحول دوست توانائی کا منظر پیش کر سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here