آئی ایم ایف 4 پاکستانی بینکوں سے اپنا سرمایہ بڑھانے کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے؟

223

کراچی: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ اگر چار کم سرمایہ رکھنے والے بینکوں (Undercapitalised Banks) نے دھانچہ جاتی اصلاحات نہ کیں تو اس سے پاکسان کے اقتصادی شعبے میں استحکام لانے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔

تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے (ایس بی اے) کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے آئی ایم ایف حکام کی جانب سے اپنے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے لیے تیار کی گئی ایک تفصیلی سٹاف رپورٹ میں مالیاتی ادارے نے کہا ہے کہ شعبہ بینکاری ابھی تک مستحکم دکھائی دیتا ہے تاہم معاشی بدحالی کا مکمل اثر ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف نے 120 صفحاتی رپورٹ میں بینکوں کے نام نہیں بتائے لیکن تجزیہ کاروں نے کم سرمایہ رکھنے والے چار میں سے تین بینکوں کے نام طشت از بام کر دیئے ہیں جن میں سے دو نجی شعبے سے ہیں یعنی سِلک بینک لمیٹڈ اور سُمٹ بینک لمیٹڈ جبکہ ایک بینک پبلک سیکٹر سے ہے جس کا نام ایس ایم ای بینک لمیٹڈ ہے۔

پبلک سیکٹر سے تعلق رکھنے والے آخری کم سرمایہ والے بینک کے نام پر تجزیہ کاروں کے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں پایا گیا۔

عالمی مالیاتی ادارے نے کہا ہے کہ مالی استحکام کو برقرار رکھنے کی غرض سے کم سرمایہ والے مالیاتی اداروں سے نمٹنے کے لیے کڑی نگرانی اور فوری کارروائی ضروری ہے۔ سٹیٹ بینک کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان بینکوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔‘‘

اپنے طور پر سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ نجی شعبے کے دو کم سرمائے والے بینک (غالباً سلک بینک اور سمٹ بینک) اگر مطلوبہ سرمایہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ان کے خلاف ممکنہ طور پر “قرارداد” داخل کی جائے گی۔

آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ “ہم نے ممکنہ سرمایہ کاروں کے ساتھ جاری بات چیت کی وجہ سے حل میں تاخیر کی ہے۔ ہم دو کم سرمائے والے نجی بینکوں کے ساتھ رابطے میں رہیں گے اور کم از کم سرمائے کی ضروریات (MCR) کی جلد از جلد تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔”

جہاں تک سمٹ بینک کا تعلق ہے، متحدہ عرب امارات کے ایک سرمایہ کار اپریل میں 10 ارب روپے کی تازہ ایکویٹی سے اس کے اکثریتی شیئر ہولڈر بن چکے ہیں۔ اس سے بینک کے سرمائے کے مسائل حل ہو جائیں گے۔

مارچ 2022ء کے آخر میں بینک میں سرمایہ کاری 10 ارب روپے کی قانونی حد کے برخلاف منفی 22.6 ارب روپے تھی۔

دوسری جانب سلک بینک گزشتہ کئی سالوں سے سرمایہ کاروں کی تلاش میں ہے، حال ہی ایم سی بی نے سلک بینک کے شئیرز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

سلک بینک کا مجموی خسارہ 2020 کے آخر میں 20.2 ارب روپے تھا، یہ آخری بار تھا جب بینک نے اپنے مالیاتی نتائج جاری کیے تھے۔ اس کا سرمایہ 2020ء کے آخر میں 10 ارب روپے کی مقررہ حد کے مقابلے میں 3.16 ارب روپے رہا۔

آئی ایم ایف کے مطابق سٹیٹ بینک نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ وہ ایک پبلک سیکٹر بینک (ممکنہ طور پر ایس ایم ای بینک) کو تحلیل کرنے کیلئے اقدامات کرے گا جبکہ وفاقی کابینہ نے اسے نجکاری کی فہرست سے نکالنے اور اس کے امور طے کرنے کی توثیق کر رکھی ہے۔

ایس بی پی نے آئی ایم ایف سے یہ عہد بھی کیا ہے کہ وہ درمیانے درجے کے پبلک سیکٹر بینک کے شیئر ہولڈرز کے ساتھ کام کرے گا، جو 2022-23 کے دوران کریڈٹ اور مارک ٹو مارکیٹ نقصانات کی وجہ سے کم سرمایہ والا بن گیا تھا۔

ایک تجزیہ کار کے خیال میں چوتھا کم سرمایہ والا قرض دہندہ سندھ بینک ہے۔ اس کے پاس تقریباً 16 ارب روپے کی ایکویٹی ہے، جس میں اس کے ہولڈ ٹو میچورٹی پورٹ فولیو میں 2 ارب روپے کے نقصان کے ساتھ ساتھ غیر فعال قرضوں میں 7.8 ارب روپے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here