آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا اندیشہ ہے: بلوم برگ

251

لاہور: اقتصادی جریدے بلوم برگ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کرنے میں ناکامی سے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات نمایاں طور پر بڑھ جائیں گے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کے حالیہ بجٹ میں ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے اور اس میں ٹیکس ایمنیسٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ  ذخائر 4 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں لیکن رواں ماہ تقریباً 90 کروڑ ڈالر ادا کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کی امداد ملنے تک جون کے آخر تک ذخائر میں مزید کمی واقع ہو جائے گی۔

پاکستان کو جولائی اور دسمبر کے درمیان اضافی 4 ارب ڈالر کی ادائیگی کا چیلنج بھی درپیش ہے جسے رول اوور نہیں کیا جا سکتا۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق اگر مالی سال 2024 کے آغاز میں زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے نیچے رہتے ہیں تو ڈیفالٹ کا امکان بہت زیادہ برھ سکتا ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر نئی بیرونی فنڈنگ ​​حاصل کرنے کے آپشنز بہت محدود ہو جائیں گے۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ نئے بیل آؤٹ کے لیے بات چیت اکتوبر میں انتخابات کے بعد تک شروع ہونے کی توقع نہیں ہے، اور کسی معاہدے تک پہنچنے میں کافی وقت لگے گا۔

نتیجتاً یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے تحت امداد کی کوئی حقیقی تقسیم دسمبر تک نہیں ہو گی۔ عبوری طور پر پاکستان کو درآمدی خریداریوں پر پابندی لگا کر ڈالر کو بچانے، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس برقرار رکھنے اور مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی میں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے دوست ممالک سے مدد لینے کی ضرورت ہوگی۔

بلوم برگ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر آئی ایم ایف نے جون کے آخر تک امداد فراہم نہ کی تو پاکستان کی معیشت کو ممکنہ طور پر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں درآمدی پابندیوں کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہو گی اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو موجودہ سطح 21 فیصد سے بھی بڑھانے کی توقع ہے۔

شرح سود کے حوالے سے متوقع ہے کہ سٹیٹ بینک دسمبر تک موجودہ شرح برقرار رکھےگا۔ تاہم یہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد جون کے آخر تک پہنچ جائے گی۔

مسلسل درآمدی پابندیاں اور روپے کی قدر میں کمی موجودہ تخمینوں کے مقابلے مالی سال 2024 میں زیادہ افراط زر کا باعث بنے گی جس کی متوقع اوسط افراط زر کی شرح 22 فیصد ہوگی۔ زیادہ قرض لینے کے اخراجات اور خام مال کی درآمدات پر پابندیاں پیداوار کو مزید متاثر کریں گی جبکہ افراط زر میں اضافہ کھپت کو کم کر دے گا۔

اگر آئی ایم ایف سے متوقع رقم اس ماہ نہیں ملتی تو مالی سال 2024 میں نمو 2.5 فیصد کی موجودہ پیشن گوئی سے کہیں زیادہ کم رہنے کا امکان ہے جس سے ملک کے اقتصادی منظرنامے کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہو گی۔

مزید برآں زیادہ شرح سود حکومت کے قرض ادائیگیوں میں اضافہ کرے گی۔ پہلے ہی بجٹ کا نصف قرضوں کی ادائیگی کیلئے رکھا گیا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here