پی ایس او کو 800 ارب روپے سے زائد وصولیوں کے بحران کا سامنا

76

 

پاکستان سٹیٹ آئل کو کلائنٹس کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث ایک مسلسل چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ اس کے قابل وصول بقایا جات 800 ارب روپے سے بڑھ  گئے ہیں۔ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی مارکیٹ میں داخل ہونے کے بعد سے کمپنی کا قرض خاص طور پر بڑھ گیا ہے۔

وصولیوں میں اضافے کا آغاز پی ایس او کی ایل این جی مارکیٹ میں شمولیت سے ہوا، خاص طور پر ایک عوامی گیس یوٹیلیٹی کےزمہ ایل این جی کی درآمدی سپلائیز کے لیے 519 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

نگران حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں 139 فیصد تک کے حالیہ بڑےاضافے کے باوجود قرض مسلسل بڑھ رہا ہے۔

قطر پیٹرولیم کے ساتھ گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (G2G) انتظامات کے تحت پی ایس او نے ایل این جی کی درآمد کے لیے ایک معاہدہ کیا، جس سے مالیاتی بوجھ میں اضافہ ہوا۔ فی الحال پی ایس او اپنے کلائنٹس سے 802 ارب روپے کی وصولی میں مصروف ہے، جو اگست 2021 میں 362 ارب روپے سے کافی زیادہ ہے۔

بڑے نادہندگان میں پاور جنریشن کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کی کل ادائیگیاں 150.8 ارب روپے ہیں۔ حبکو پر 29.5 ارب روپے واجب الادا ہیں، جبکہ کپکو کے ذمے 5 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) ایک اور اہم ڈیفالٹر ہے، جس کے زمہ پی ایس او کی طرف سے فراہم کردہ جیٹ فیول کی مد میں 27.9 ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔

بقایا کلائنٹ کی ادائیگیوں کے علاوہ پی ایس او حکومت سے 8.9 ارب روپے کی وصولی کا انتظار کر رہا ہے، جس کی وجہ قیمت کے فرق کے دعوے ہیں۔ جمع ہونے والی وصولیاں اب کمپنی کی آئل ریفائنریوں کے ساتھ اپنے واجبات کو طے کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر رہی ہیں، جس کے نتیجے میں قابل ادائیگیاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔

ریفائنریوں کو پی ایس او کی بقایا ادائیگیوں میں پاک عرب ریفائنری کمپنی (پارکو) کو 26.6 ارب روپے، پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کو 8.4 ارب روپے، نیشنل ریفائنری لمیٹڈ کو 4.1 ارب روپے، اٹک ریفائنری لمیٹڈ کو 6.9 ارب روپے، 1.7 روپے شامل ہیں۔ بائیکو کو 17 لاکھ اور اینار کو ایک ارب روپےشامل ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے تیل درآمد کنندہ کے طور پر پی ایس او نے کویت پیٹرولیم کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، جس میں تیل اور ایل این جی کی درآمدات کے لیے کھولے گئے لیٹرز آف کریڈٹ کے لیے 104 ارب روپے کی بقایا ادائیگی ہے۔

ان مالی چیلنجوں کے باوجود پی ایس او کے مالیاتی نتائج ایک چیلنجنگ معاشی ماحول کے باوجود اس کے متنوع پورٹ فولیو میں لچک اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

 

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here