ملک بھر میں کسانوں کو سرکاری قیمتوں پر یوریا کھاد کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا ہے، رپورٹس کے مطابق ڈیلرزاورمڈل مین کی ذخیرہ اندوزی مہنگائی کی وجہ ہے جس سے گندم کی فصل کی پیداوار کو خطرات کا سامنا ہے۔
کسان گروپوں کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران یوریا کے 50 کلوگرام تھیلے کی قیمت 47 فیصد اضآفے سے 5 ہزارروپے تک پہنچ گئی۔
کسان گندم کی ابتدائی نشوونما کے مراحل کے لیے اس ضروری کھاد کی مناسب دستیابی اور تقسیم کو یقینی بنانے میں حکومت کی ناکامی پر پریشان ہیں۔
مینوفیکچررز کے دعوے کے باوجود کہ قیمتوں میں کوئی حالیہ تبدیلی نہیں کی گئی، یوریا کھاد کی قیمتیں صرف ایک ہفتے میں ملک بھر میں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔
یہ اضافہ سرکاری قیمت سے 1,590 روپے تک زیادہ ہے جو دسمبر میں ایک ایسے نازک وقت پر آیا ہے جب گندم کی فصل کے ابتدائی مراحل کے دوران کھاد کی مانگ زیادہ ہوتی ہے۔
یوریا کا ناکافی استعمال گندم کی سٹریٹجک فصل کی پیداوار کے لیے خطرہ ہے، جو آبادی کے ایک اہم حصے کی بنیادی خوراک ہے۔ پنجاب ایگریکلچر ایکسٹینشن ونگ نے یوریا کی قیمتیں جاری کر دی ہیں، کسانوں کا دعویٰ ہے کہ صوبوں میں ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
مینوفیکچررز کی طرف سے مقرر کردہ قیمتوں سے زیادہ پر فروخت اور ذخیرہ اندوزی سمیت بدعنوانیوں کے امکان نے طے شدہ قیمتوں پر کھاد کی سپلائی برقراررکھنے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔
صوبائی محکمہ زراعت اور ضلعی حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود کسانوں کو قیمتوں میں اضافے اور بہت سے علاقوں میں یوریا کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔
کسان بتا رہے ہیں کہ یوریا جس کی سرکاری طور پر قیمت 3,410 روپے فی بوری ہے، 4,700 سے 4,800 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے، جس سے گندم کی پیداوار پر ممکنہ اثرات کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
کسان بورڈ پاکستان (KBP) نے خبردار کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی، قلت اور مہنگی کھاد کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ کے پی بی کے صدر سردار ظفر حسین خان نے حکومت، مقامی حکام اور کھاد مافیا کے درمیان ملی بھگت کا الزام لگایا ہے، جس کی وجہ سے بلیک مارکیٹنگ، من مانی قیمتوں کا تعین اور مصنوعی قلت ہوتی ہے۔
کسان بورڈ پاکستان کے رہنما نے سپریم کورٹ سے کھاد کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لینے کی درخواست کی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو کسان احتجاج کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھرنے کہا کہ پیداوار کی کم فروخت کی شرح کے باوجود کسانوں کو بڑھتی ہوئی ان پٹ لاگت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے زراعت کو معاشی طور پر چیلنجز کا سامنا ہے۔
ملک بھر میں گندم کی بوائی ختم ہونے کے ساتھ ہی سرکاری قیمتوں پر یوریا کی دستیابی کسانوں کے لیے ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے۔ 5 ہزارروپے فی بوری یوریا اور 14 ہزارروپے ڈی اے پی کی قیمت زراعت کے شعبے کی پائیداری کے لیے اہم چیلنج ہیں۔