سہ ماہی اور ماہانہ فیول چارجز کے ذریعے پیداواری لاگت کی وصولی میں تاخیر کے نتیجے میں گردشی قرضے میں 250 ارب روپے کا مزید اضافہ ہوا۔
بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے اور لون سروسنگ سرچارج کے نفاذ کے باوجود پاکستان کے پاور سیکٹر کا گردشی قرض جون 2023 کے آخر تک 23.1کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ پریشان کن پیشرفت نااہلی، چوری، اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو درپیش بڑھتے ہوئے نقصانات۔ کا نتیجہ ہے۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2022-23 کے دوران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی حکومت پاور سیکٹر کی ابتر حالت میں کوئی بامعنی بہتری نہیں لا سکی، جس کے نتیجے میں گردشی قرضے میں مجموعی طور پر 789 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور بجٹ سبسڈی کے اثرات کو چھوڑ کر گزشتہ مالی سال کے دوران گردشی قرضے میں اب بھی 57 ارب روپے کا خالص اضافہ ہوا۔
وزارت توانائی کے حکام کے مطابق مالی سال 2023 کے آغاز میں گردشی قرضہ 22.53 کھرب روپے تھا ،2.31 کھرب روپے تک بڑھ گیا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کے جواب میں پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ سال میں بجلی کی قیمتوں میں دو بار اضافہ کیا۔ اس میں پچھلے سال جولائی میں 7.91 روپے فی یونٹ ٹیرف اور رواں سال جولائی سے 8 روپے فی یونٹ اضافی اضافہ شامل تھا۔ مزید برآں 3.23 روپے فی یونٹ کا قرض سروسنگ سرچارج متعارف کرایا گیا، اور زراعت اور صنعتی شعبوں کے لیے سبسڈی واپس لے لی گئی۔
ان اقدامات کے باوجود فی یونٹ بجلی کی قیمتیں 50 روپے سے زیادہ ہو گئیں، اور بیوروکریسی اور سابقہ سیاسی قیادت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو درپیش مسائل کو دور کرنے کے لیے کوشش کی۔ اس کے نجیجے میں اوسطاً 20 ہزار روپے سے کم ماہانہ آمدنی والے صارفین کو جولائی کے لیے 16 ہزار روپے تک کے بل موصول ہوگئے۔
تفصیلی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے سندھ میں ہونے والے نقصانات اور چوری کی تلافی کی۔ تاہم تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں مل کر ٹارگٹڈ بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام رہیں۔ پاور ڈویژن کے سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، جس سے صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
بجلی پیدا کرنے والوں کو واجبات گزشتہ سال جون میں 13.5 کھرب روپے سے بڑھ کر جون 2023 کے آخر تک 14.4 کھرب روپے ہو گئے، اس کے باوجود بجٹ سبسڈیز کی وجہ سے جائزہ مدت کے دوران گردشی قرضہ 35 ارب روپے کم ہو کر 765 ارب روپے ہو گیا۔ لیکن ایندھن سپلائی کرنے والوں کو ادائیگیوں میں 111 ارب روپے کا اضافی اضافہ کیا گیا۔
گردشی قرضے میں مجموعی طور پر 789 ارب روپے کے اضافے میں سے 396 ارب روپے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نااہلی اور نقصانات اور بل کی وصولی کی کم شرح کے نتیجے میں ہوئے۔ پچھلی حکومت نے ان ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نقصانات کی وجہ سے گردشی قرضے میں 160 ارب روپے کا حصہ ڈالا، جس میں صرف ایک سال میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ کم بل کی وصولی میں مزید 236 ارب روپے کا اضافہ ہوا، جو کہ 31 فیصد اضافہ ہے۔
گزشتہ مالی سال کے لیے حکومت نے بجلی کی سبسڈی کی مد میں 570 ارب روپے کا بجٹ رکھا تھا تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد یہ تعداد بڑھا کر 912 ارب روپے کر دی گئی۔ پاور پروڈیوسرز کو ادائیگیوں میں تاخیر کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ میں 100 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا اور پاور ہولڈنگ کمپنی کے 765 ارب روپے کے بینکوں کو سود کی ادائیگی کے لیے 43 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔
3 روپے 23 پیسے فی یونٹ قرضہ سروسنگ سرچارج عائد کرنے کے باوجود حکومت بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ سہ ماہی اور ماہانہ فیول چارجز کے ذریعے پیداواری لاگت کی وصولی میں تاخیر کے نتیجے میں گردشی قرضے میں 250 ارب روپے کا اضافی اضافہ ہوا۔
گردشی قرضے میں مجموعی اضافہ 789 ارب روپے تھا، لیکن 447 ارب روپے دوسرے ذرائع سے پورا کیے گئے، جیسے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے متعلق پچھلے سالوں کی ایڈجسٹمنٹ کی کئی۔ آئی ایم ایف کی ضروریات کے مطابق بجٹ سے سبسڈی کی ادائیگی کے ذریعے مزید 342 ارب روپے کم کیے گئے۔