لاہور: آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی طرف سے کئے گئے ایک آڈٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کو مالی سال 2022-23 کے دوران 55 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ نقصانات کی وجہ گورننس کے مسائل، مالیاتی بدانتظامی اور شفافیت کی کمی ہے۔
آڈٹ میں پائے جانے والے بڑے مسائل میں سے ایک غیر ملکی قرضوں پر سود اور ایکسچینج رسک پریمیم کی مد میں جمع شدہ ذمہ داری کا ریکارڈ نہ ہونا تھا، جس کی رقم 29.35 ارب روپے تھی۔ رپورٹ میں منصوبوں میں تاخیر اور 12.64 ارب روپے کے سسپنس بیلنس کو ایڈجسٹ نہ کرنے سے ممکنہ ریونیو نقصان کی وجہ سے 19.80 ارب روپے کے نقصان کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ مزید برآں محکمہ نے مختص بجٹ سے زائد 11.75 ارب روپے خرچ کیے، جس سے مالیاتی دباؤ بڑھ گیا۔
پاکستان ریلوے کے مالیاتی گوشواروں میں جمع شدہ پنشن واجبات کو ریکارڈ کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں 8.25 ارب روپے کا اضافی نقصان ہوا۔ زیادہ نرخوں پر کنٹریکٹ ایوارڈز سے محکمہ کو 6.96 ارب روپے کا نقصان ہوا، اور پاکستان ریلویز فریٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی (PRFTC) کی پنجاب ریونیو اتھارٹی کے ساتھ رجسٹریشن نہ ہونے سے 7.92 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ غیر آپریٹنگ ٹریک تک رسائی کے معاہدوں کے نتیجے میں سالانہ 6.10 ارب روپے کا مزید نقصان ہوا، اور خریداری میں منصفانہ مسابقت اور شفافیت کے فقدان کی وجہ سے محکمہ کو 5.09 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ قابل وصول بلوں کی وصولی نہ ہونے سے محکمہ کو 5.05 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بولیوں کو حتمی شکل دینے میں تاخیر سے مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے 2.07 ارب روپے کا اضافی نقصان ہوا۔ کوئلے سے متعلق مشکوک وزنی طریقوں سے مزید 2.07 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑآ۔
اسی طرح ہوانینگ شانڈونگ روئی سے PRFTC کے واجبات کی عدم وصولی کی وجہ سے محکمہ کو 1.37 ارب روپے کا نقصان ہوا، سکریپ کو ٹھکانے نہ لگانے کی وجہ سے86.69 کروڑ روپے کا اضافی نقصان دیکھا گیا۔
رپورٹ میں گورننس، مالیاتی اور آپریشنل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان ریلویز کے اندر نظامی اصلاحات کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ان بڑے نقصانات کا سبب ہیں۔ ایسا کرنے میں ناکامی اس اہم نقل و حمل کے ادارے کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے، جو طویل عرصے سے مالی اور انتظامی مسائل سے دوچار ہے۔