نئے آرڈر نایاب، ٹیکسٹائل برآمدکنندگان نے ہنگامی حالات کا انتباہ جاری کر دیا

219

کراچی: پاکستان کو برآمدات سے 60 فیصد آمدن ٹیکسٹائل سیکٹر دیتا ہے تاہم اب یہ شعبہ نئے برآمدی آرڈرز سے محروم ہے جبکہ بھارت جی ایس پی پلس سٹیٹس کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے جو اسے یورپی مارکیٹ میں پاکستان کی جگہ دِلا سکتا ہے۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بزنس مین گروپ کے نائب چیئرمین اور ٹیکسٹائل کے ایک بڑے برآمد کنندہ جاوید بلوانی نے خبردار کیا ہے کہ ’’ٹیکسٹائل برآمدات کیلئے نئے آرڈرز نہیں مل رہے۔ ہم پہلے سے موجود آرڈرز پر کام کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ آئندہ مہینوں میں مجموعی برآمدات میں زبردست کمی دیکھنے میں آئے گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2023ء میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 14 فیصد کمی ہوئی جس کا مطلب پیداوار، ملازمتوں اور اس سے منسلک شعبوں میں یکساں کمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ تک پہنچنے کے بعد ایکسپورٹ ری فنانس سکیم کے بند ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں کیونکہ حکومت برآمدی شعبے کے لیے سبسڈی پر مبنی مالی وسائل کی سکیموں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ سٹیٹ بینک نے پہلے ہی سود کی شرح اور ایکسپورٹ ری فنانس کے درمیان فرق کو 5 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کر دیا ہے۔ سود کی موجودہ 22 فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ برآمد کنندگان کو تقریباً 19 فیصد مارک اپ ادا کرنا پڑے گا۔

برآمد کنندگان نے کہا کہ یہ شرح حریف ممالک کے مقابلے میں پہلے ہی بہت زیادہ ہے جبکہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت نے صنعت کو مفلوج کر دیا ہے۔

یورپی ممالک کو ٹیکسٹائل کی تیار شدہ مصنوعات برآمد کرنے والے عامر عزیز نے کہا کہ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ برآمد کنندگان کو بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کے لیے سستے خام مال کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو دیوالیے سے بچانے کے لیے زرمبادلہ کمایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ ہندوستان یورپی یونین کا جی ایس پی پلس درجہ حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اگر بھارت کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے یورپ کو ہماری برآمدات میں کمی آئے گی جو پاکستانی اشیاء کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

بلوانی نے تاہم افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے بھارتی اقدام کو ناکام بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مقابلے میں کہیں نہیں ہے لیکن نئی دہلی کیلئے جی ایس پی پلس سٹیٹس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو 8 ارب ڈالر سے زائد کی یورپی مارکیٹ سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔

تاہم اس اقدام کا بنگلہ دیش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وہاں کاروبار کرنے کی لاگت پاکستان کے مقابلے بہت کم ہے۔

ہندوستانی وزیر اعظم نے اپنے حالیہ امریکی دورے میں وال مارٹ اور ایمازون کے سربراہوں سے ہندوستانی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے ملاقات کی۔ سرمایہ کاروں کو اپنے ملک میں مدعو کیا اور ان کی برآمدات کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کیے۔

حال ہی میں ایک پاکستانی برآمد کنندہ کو اس وقت عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب نائیکی (Nike) اور لیوائز (Levis) کے نئے تعینات ہونے والے انڈین پروکیورمنٹ انچارج نے پاکستان سے خریداری روک دی اور پاکستانی کمپنی کا نقصان کر کے بھارت سے خریداری شروع کر دی۔ پاکستانی کمپنی کو 30 کروڑ ڈالر سے زائد نقصان ہوا۔

برآمدکنندگان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہندوستان جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کے پاس ہندوستان اور بنگلہ دیشی مصنوعات سے مقابلہ کرنے کا کوئی موقع نہیں رہے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here