سینیٹ کمیٹی برائے توانائی کا بجلی بحران کے حل کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ

218

اسلام آباد: ایوان بالا کی کمیٹی برائے توانائی نے کہا ہے کہ ملک میں توانائی کے بحران کا واحد حل یہ ہے کہ قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں اور قیمتوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔

سینیٹ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی صدارت میں ہوا جس میں بجلی کے مہنگے نرخوں پر غور کیا گیا جس سے عوام میں سول نافرمانی اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ اجلاس میں پاور ڈویژن کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئی پی پیز کو بغیر نگرانی کے آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دینا چاہیے کیونکہ اس سے اوور انوائسنگ کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ غلط معلومات اور دھوکا دہی کے حوالے سے قواعد کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔

کمیٹی نے ریمارکس دیئے کہ بجلی کے پورے شعبے پر آئی پی پیز کی گرفت ہے، پتا کرنا چاہیے کہ انہیں ادائیگیاں کس بنیاد پر کی گئیں۔ کمیٹی نے آئی پی پیز کی جانب سے ادائیگیوں میں دس سالہ وقفہ نہ دینے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کو تفصیلات کا علم ہونا چاہیے۔ کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عوام کو اس وقت تک ریلیف نہیں ملے گا جب تک کہ پاور ڈویژن میں نااہل افسران برقرار ہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ کل 104 آئی پی میں سے 34 نے ریلیف معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت ٹیرف کی شرح پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ وزارت خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔

کمیٹی نے استفسار کیا کہ ملک میں 44 ہزار 943 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کے حامل پاور پلانٹس موجود ہیں، لیکن اتنی بجلی پیدا نہیں ہو رہی۔ پاور ڈویژن کے حکام اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ آئی پی پی کو کپیسٹی پیمنٹس کے حوالے سے بھی وزارت جواب دینے میں ناکام رہی۔

پاور ڈویژن کے حکام کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی سے عوام کو فائدہ ہو گا۔ کمیٹی نے آئی پی پیز کے بارے میں تفصیلی اعدادوشمار، ٹیرف اور دیگر تفصیلات کے بارے میں بھی دریافت کیا کہ ٹیرف کس بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس مخمصے کو ختم کرنے کے لیے تمام محکموں کو یکساں کردار ادا کرنا ہو گا۔ تمام اراکین کمیٹی مجموعی طور پر پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں اور عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ کمیٹی نے بجلی چوری اور کُنڈا کنکشن کی روک تھام کے لیے پالیسی کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ بتایا گیا کہ 78 ہزار ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں اور 12 ہزار افراد کے خلاف شکایت درج کرائی جا چکی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 64 فیصد گھریلو صارفین ٹیرف میں اضافہ سے متاثر نہیں ہوں گے جبکہ 32 فیصد گھریلو صارفین کا ٹیرف 3 روپے سے 6.5 روپے فی یونٹ تک بڑھے گا، اسی طرح 5 فیصد گھریلو صارفین کے ٹیرف میں 7.5 روپے فی یونٹ اضافہ ہو گا جبکہ مجموعی طور پر گھریلو صارفین کیلئے ٹیرف میں اوسط اضافہ 3.82 روپے فی یونٹ ہو گا۔ دیگر تمام کیٹیگریز کیلئے ٹیرف میں 7.5 روپے فی یونٹ اضافہ ہو گا۔

کمیٹی نے گھریلو صارفین کو ریلیف دینے کے حوالے سے پاور ڈویژن کی پیچیدہ پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے کہا کہ 200 یونٹس سے کم استعمال پر ٹیرف اضافے کو غیر مشروط طور پر ختم کیا جائے اور یونٹوں کی تعداد بڑھائی جائے۔

کمیٹی ارکان نے کہا کہ بجٹ میں پاور سیکٹر کو سبسڈی دینے کیلئے 976 ارب روپے روکھے گئے۔ تقسیم کار کمپنیوں کے لیے 158 ارب روپے کی سبسڈی مختص کی گئی۔ کے الیکٹرک کے لیے 169 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پاور ہولڈنگ کمپنی کے سود ادائیگی کیلئے 82 ارب روپے اور کے الیکٹرک کے لیے 126 ارب روپے بھی شامل ہیں۔

کمیٹی میں سینیٹرز فدا محمد، ذیشان خانزادہ، سیف اللہ نیازی، شہزادہ احمد عمر احمد زئی، حاجی ہدایت اللہ خان، بہرامند خان تنگی، حافظ عبدالکریم اور سینیٹر ثناء جمالی نے شرکت کی۔ متعلقہ محکموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here