پاکستان قرضوں کے خوفناک چُنگل سے کیسے نکل سکتا ہے؟

267

لاہور: گزشتہ ہفتے پاکستانی روپے نے تاریخی گراوٹ کا سامنا کیا اور یہ ڈالر کے مقابلے میں 300 روپے کی حد عبور کر گیا۔ ایک اور ریکارڈ بھی بنا وہ یہ کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی 300 روپے فی لٹر سے تجاوز کر گئیں۔ اسی طرح بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، اور آنے والے ہفتوں میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ غریب طبقے کے لیے زندگی کے بنیادی اخراجات پورے کرنا اب تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ لوگ سڑکوں پر احتجاجاََ اپنے بجلی کے بل جلا رہے ہیں۔  شٹر ڈاؤن ہڑتالیں ہو رہی ہیں اور عوام معیشت کا بُرا حال کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔

یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس صورتحال تک پہنچنے میں طویل عرصہ لگا ہے۔ بدعنوان، نااہل اور بہت سے معاملات میں ناخواندہ سیاستدانوں کو بار بار ووٹ دیا گیا، یہ ایک گھٹیا طرز حکمرانی کا نتیجہ ہے جس نے جاگیرداروں، قبضہ گیروں اور غنڈوں کو عوام کو خوفزدہ کرنے اور ایک بے بس قوم کو ایسے لوگوں کو ووٹ دینے پر مجبور کیا اور جب وہ ایک بار اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں تو ان کی اصل دلچسپی خود کو مالا مال کرنے میں ہوتی ہے۔ افسوس ایسے عوام پر!

کیا پاکستان کو ٹھیک کر کے پٹری پر واپس لایا جا سکتا ہے؟ جواب ‘ہاں’ میں ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے ایک طرح کی ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہو گی جس کی ماضی میں کمی رہی ہے۔ یہ کام موجودہ عبوری حکمران نہیں کر سکتے کیونکہ وہ عبوری دور کیلئے ہے۔ اور ان کے پاس محض اتنا سا آئینی حق ہے کہ وہ 90 دنوں میں انتخابات کرائیں اور اقتدار نئی “منتخب” حکومت کے حوالے کریں۔

موجودہ نظام کے تحت انتخابات انہی پرانے بدمعاشوں کو دوبارہ اقتدار میں لائیں گے جو بلاشبہ تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں گے۔ پاکستان کو بچانے کیلئے دو قسم کے اقدامات کرنا ہوں گے: قلیل مدتی اور طویل مدتی۔

پہلے قلیل مدتی کو دیکھیں: پاکستان قرضوں کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے۔ مصنوعی طور پر سانس بحالی (Tracheostomy) کا عمل جتنی جلدی ہو سکے، اتنا ہی بہتر ہے۔ غور کریں کہ آئندہ مالی سال کیلئے حکومت کا بجٹ تخمینہ ٹیکس وصولی کے ذریعے 7 ٹریلین روپے ہے۔ اسی اندازے کے مطابق اخراجات 14.5 ٹریلین روپے ہیں۔ اس 14.5 ٹریلین روپے میں سے 7.4 ٹریلین روپے قرض کی ادائیگی کے لیے ہیں۔ اس کی مضحکہ خیزی ملاحظہ کریں کہ حکومت کا پورا ریونیو بھی قرض کی ادائیگی کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

ہم قرض کے ایسے جال میں پھنس چکے ہیں جو درحقیقت موت کا شکنجہ ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تمام قرضوں کی ادائیگیوں کو، سود اور اصل رقم، فوری طور پر روک دیا جائے۔ اس کا اطلاق تمام قرض دہندگان پر ہونا چاہیے اور یہ یقینی طور پر کوئی ایسا قدم نہیں جو موجودہ عبوری حکومت اٹھائے۔ اس لیے بھی نہیں کہ اس کی وزیر خزانہ ورلڈ بینک کی سابق ملازم رہی ہیں۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ دیوالیے کے ناخوشگوار نتائج ہوں گے۔ ہمارے پاس ترسیلات کا ایک مستحکم سلسلہ ہے جو پچھلے سال 30 ارب ڈالر کا تھا۔ ہماری برآمدات بھی اسی ترتیب کی ہیں۔ ایک  چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ درآمدات میں زبردست کمی کی جائے جو قابو سے باہر ہو چکی ہیں۔

ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ جب تک معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ضروری ہو انتخابات کو ملتوی کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی بنیادی مینڈیٹ اقتصادی اور سیاسی تنظیمِ نو بننا چاہیے کیونکہ ایک بار جب معیشت بچ جاتی ہے تو اسے واپس ان لوگوں کے ہاتھوں میں ڈال دینا جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا، پاگل پن سے زیادہ کچھ نہیں۔

طویل مدتی اقدامات میں، سیاسی نظام کو نئے سرے سے مرتب کرنا، درحقیقت معمول کے بدمعاشوں، جاگیرداروں، زمینوں پر قبضے کرنے والوں اور غنڈوں کیلئے پارلیمنٹ تک جانے کا راستہ روکنا چاہیے۔ اس کے بجائے اہلیت، دیانت اور شائستگی کے حامل افراد کو قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع دینا چاہیے۔ ایسا کرنا ناممکن نہیں۔ کئی اقدامات ذہن میں آتے ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے آسان اور قابل عمل اقدام ووٹ کا حق صرف میٹرک پاس لوگوں کو دینا ہے۔

جن ووٹروں کے پاس بنیادی سطح کی تعلیم ہے انہیں آسانی سے ڈرایا یا بیوقوف نہیں بنایا جائے گا۔ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈال سکیں گے بجائے اس کے کہ کسی مقامی زمیندار کو ووٹ دینے کا حکم دیا جائے۔ وہ ان نئے آنے والوں کا خیرمقدم کریں گے جو مایوس کن ماضی سے نکالنے والے ہیں اور واقعی ایک نئی شروعات کا وعدہ کرتے ہیں۔

یہاں خاص طور پر مغرب میں جمہوریت کے خود ساختہ محافظ ہیں، جو احتجاج کریں گے کہ یہ غیر جمہوری ہے۔ تو انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت ایک شیڈ یا رنگ میں نہیں آتی۔ اور یہ کہ جمہوریت کا کوئی دستور العمل آسمان سے نہیں اترا جس میں کہا گیا ہو کہ ووٹ ہر ایک کیلئے ہونا چاہیے۔ درحقیقت، اسلامی روایت میں “جمہوریت” میں ان لوگوں سے مشاورت شامل تھی جو اسے فراہم کرنے کے سب سے زیادہ اہل تھے۔

پاکستان کو اپنا راستہ خود تلاش کرنا ہوگا۔ ہم مزید ان لوگوں کے غلام رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے جو اپنے مفادات کو عوامی مفادات سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here