سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ متوقع

225

کراچی: سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی جانب سے 14 ستمبر کے اجلاس میں شرح سود میں اضافے کا امکان ہے۔

مرکزی بینک مانیٹری پالیسی کو اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سرمائے کی فراہمی کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک نے اپریل سے اَب تک بڑھتی ہوئی مہنگائی کا حوالہ دے کر شرح سود میں 12.25 فیصد پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے۔

چار تجزیہ کار جن سے پرافٹ نے رابطہ کیا، توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ آئندہ اجلاس میں شرح سود میں اضافہ کیا جائے گا۔  جے ایس گلوبل کی ہیڈ آف ریسرچ امرین سورانی اور اسماعیل اقبال سکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف دونوں پالیسی ریٹ میں 100 بیسز پوائنٹس (بی پی ایس) اضافے کی توقع رکھتے ہیں۔

دریں اثنا عارف حبیب لمیٹڈ کی ایک سینئر تجزیہ کار ثنا توفیق نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں 100 سے 150 بیسز پوائنٹس تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اضافہ یقینی طور پر ضروری نہیں کیونکہ افراطِ زر مالی سال کی دوسری ششماہی میں نیچے آئے گا۔

مہنگائی 2022ء کے وسط سے اوپر جا رہی ہے اور مئی میں 37.97 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، تاہم حالیہ مہینوں میں یہ 30 فیصد سے نیچے گر گئی ہے جس کی وجہ ہائی بیس ایفیکٹ ہے۔ چونکہ افراط زر پچھلے سال ہی بڑھنا شروع ہو گئی تھی، اس لیے مالی سال 2024ء میں سالانہ فرق اتنا زیادہ نہیں ہو گا۔ اگست کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

ثنا توفیق نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی، تیل کی بلند قیمتوں اور بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے مزید کچھ عرصہ مہنگائی کا دباؤ رہے گا۔ “ظاہر ہے مختصر مدت میں افراط زر کا دباؤ رہے گا، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ سٹیٹ بینک کیا تجزیہ کرتا ہے— بنیادی افراطِ زر یا مستقبل کی بنیاد پر۔”

ان کے خیال میں یہاں اہم پہلو یہ ہے کہ افراط زر کا دباؤ سپلائی اور مالیاتی پہلوؤں کی وجہ سے ہے۔ سٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی میں اضافہ جاری رکھ سکتا ہے لیکن جب تک مالیاتی اصلاحات یعنی بجلی کے شعبے میں اور دیگر شعبوں میں نہیں ہوتیں، شرح سود میں اضافے سے حکومت کے قرضے ہی بڑھیں گے۔

ثنا توفیق نے مزید کہا کہ مرکزی بینک شرح سود میں اس لیے بھی اضافہ کر سکتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے سخت مالیاتی پالیسی کے لیے کہا تھا۔ “ایک بار جب یہ ادائیگیاں ہو جائیں تو روپے پر دباؤ کم ہونا چاہیے، خاص طور پر قدر میں کمی کے موجودہ دور کے بعد۔”

دریں اثنا، چیز (Chase) سکیورٹیز کے ریسرچ ڈائریکٹر یوسف فاروق نے کہا کہ سٹیٹ بینک روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کے لیے پالیسی ریٹ میں اضافے پر غور کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، اور یہ انتباہ شامل کیا کہ سٹیٹ بینک کے پاس تجزیہ کرنے کے لیے زیادہ کرنٹ ڈیٹا موجود ہے جو عوام کے لیے دستیاب نہیں ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here