انٹربینک، اوپن مارکیٹ ریٹ میں نمایاں فرق آئی ایم ایف جائزے میں پاکستان کو مشکل صورتحال سے دوچار کر سکتا ہے

242

کراچی: امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں سرکاری اور غیر سرکاری شرح مبادلہ کے درمیان فرق واضح طور پر بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو ممکنہ طور پر آئی ایم ایف جائزے سے چند ہفتے قبل ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

پاکستانی کرنسی حالیہ دنوں میں گراوٹ کا شکار رہی ہے خاص طور پر جب حکومت نے درآمدی پابندیاں ختم کیں جس کے نتیجے میں ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق 30 اگست کو ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر 1.4 روپے یا 0.45  فیصد گری اور انٹربینک مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر 304.45 روپے کا ہو گیا۔

دریں اثنا ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) کے مطابق اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 316 روپے میں خریدا گیا جبکہ 319 روپے میں فروخت ہوا۔ تاہم ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ’سرکاری‘ شرح اُس شرح سے نمایاں طور پر کم تھی جس پر ایکسچینج کمپنیاں اصل میں ڈالر فروخت کر رہی تھیں۔

دو ایکسچینج کمپنیوں جن تک پرافٹ نے رسائی حاصل کی، کے مطابق امریکی ڈالر تقریباً 323 روپے میں فروخت ہو رہا تھا اور اس کی رسد کم تھی۔

آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے کی شرائط کے تحت حکومت کو مارکیٹ پر منحصر شرح مبادلہ کی پابندی کرنا ہو گی اور انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں شرح مبادلہ کے درمیان فرق پانچ سے زیادہ کاروباری دِنوں کیلئے 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

سٹیٹ بینک کے جاری کردہ انٹربینک ریٹ اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق 14.95 روپے یا 4.93 فیصد ہے جو آئی ایم ایف کی طے کردہ حد سے بہت زیادہ ہے۔ تاہم دوسری جانب انٹربینک ریٹ اور ’غیر سرکاری‘ اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق اس سے بھی زیادہ ہے جو 19.95 روپے یا 6.58 فیصد بنتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ نہیں گرتا تو چاہے کچھ بھی ہو انٹربینک ریٹ کو کنٹرول کرنا پڑے گا اور اگر آئی ایم ایف کے اگلے جائزے (اکتوبر یا نومبر میں) یہ فرق کم نہیں کیا جاتا یا حکومت اوپن مارکیٹ ریٹ کو کم کرنے کے لیے ڈالر کی فروخت پر کوئی پابندی عائد کرتی ہے تو اس سے آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط لینے کیلئے حکومت کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔

اسماعیل اقبال سکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں شرح مبادلہ کے درمیان فرق کم کرنے سے مزید گراوٹ ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اوپن مارکیٹ ریٹ کو نیچے لائے یا پھر انٹربینک ریٹ کو اس کے مطابق ہونے دے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی نہ ہونے دی یا آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی تو آئی ایم ایف کو اگلی قسط کے اجراء کے لیے قائل کرنا مشکل ہو جائے گا۔

تقریباً 70 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ 18 اگست 2023ء کو ختم ہونے والے ہفتے میں سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے نیچے آ گئے جو دو ماہ کی درآمدات کیلئے بھی کاف نہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ذخائر کو بڑھانے کے لیے اگلا جائزہ مکمل کرے کیونکہ اسے مالی سال 2024ء میں 25 ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف نے معاہدے کے عین مطابق مالی سال 2024ء کے پہلے دو مہینوں میں ٹیکس وصولی کا جائزہ لینے کے لیے پہلے ہی ایف بی آر کے ساتھ ورچوئل بات چیت شروع کر دی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here