کپاس کے شعبے میں بھی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرانے پر اتفاق، کیا یہ موثر ثابت ہو گا؟

304

اسلام آباد: نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز اور چیئرمین وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) ملک امجد زبیر ٹوانہ نے کپاس کے کاروبار میں شفافیت کیلئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرانے پر اتفاق کیا ہے جو جننگ فیکٹریوں میں لگایا جائے گا۔

تاحال اس نظام کو شوگر اور تمباکو انڈسٹری کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ پیداوار کی موثر اور عالمی معیار کے مطابق نگرانی یقینی بنائی جا سکے اور ٹیکس پیداوار کے مطابق عائد کیا جا سکے۔ تاہم سیمنٹ، کھاد اور بیوریجز کے شعبوں میں یہ نظام متعارف کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔

اس نظام کی ضرورت کیوں پڑی؟

دراصل مینوفیکچررز ٹیکس بچانے کے لیے پیداواری اعدادوشمار میں ہیر پھیر کرتے ہیں۔ مثال کے طور کوئی یوریا مینوفیکچرر ماہانہ 500 تھیلے بناتا ہے لیکن فیکٹری سے یوریا کی ماہانہ طلب 400 تھیلے ہے۔ اَب اگر 500 تھیلے تیار ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ رسد طلب سے بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں قیمت گر سکتی ہے۔ اَب صنعت کار کو اضافی 100 تھیلوں کی پیداوار پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس لیے وہ اضافی 100 تھیلوں کی بجائے حکومت کو 400 تھیلوں کی پیداوار ہی ظاہر کرے گا جبکہ بقیہ 100 تھیلوں کو کم قیمت پر ٹیکس ادا کے بغیر مارکیٹ میں فروخت کر دے گا۔

مینوفیکچررز اپنے پیداواری اعدادوشمار گھٹا کر بتاتے ہیں۔ غیر رپورٹ شدہ پیداوار ٹیکس ادا کیے بغیر قدرے کم قیمت پر فروخت کر دی جاتی ہے جس سے بلیک مارکیٹ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں ’’شیڈو اکانومی‘‘ کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محققین کے مطابق غیر دستاویزی معیشت کا حجم مجموعی ملکی پیداوار کے تقریباََ 40 فیصد سے 80 فیصد کے درمیان ہے۔

یقیناً اگر آپ قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے کم پیداوار رپورٹ کر سکتے ہیں تو ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ایسا کرنے کا بھی زیادہ امکان ہے۔ ایسا تقریباََ ہر صنعت میں ہو رہا ہے۔

گزشتہ ماہ ہی کسٹمز حکام نے بلوچستان کے ضلع خضدار میں سمگل شدہ اشیاء کی روک ترسیل روکنے کیلئے تین چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران 39 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی چینی اور یوریا کھاد قبضے میں لی۔ اس دوران یوریا کے 41 ہزار 883 تھیلے برآمد کیے گئے جن کی مارکیٹ میں قیمت 16 کروڑ 75 لاکھ روپے ہے۔ چینی کے 44 ہزار 957 تھیلے پکڑے گئے جن کی مالیت 22 کروڑ 47 لاکھ روپے ہے۔

ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کیا ہے؟

اس نظام کے ذریعے حکومت کمپنی کی پیداوار اور کیٹلاگ کی نگرانی کرتی ہے کہ اس کی مجموعی پیداوار کتنی ہے اور پھر اس کے مطابق براہ راست ٹیکس عائد کرتی ہے۔ لہٰذا اگر یوریا کی مثال ہی لیں تو حکومت یوریا کمپنیوں سے کہے گی کہ وہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں جس سے فیکٹری سے نکلنے والے یوریا کے ہر تھیلے پر ایک مخصوص مہر لگے گی جو سکین ہو سکے گی۔

اس سکیننگ سے ڈیٹا براہ راست ایف بی آر کو جائے گا جو یوریا کے تھیلوں کی مجموعی تعداد کو ریکارڈ کر لے گا اور اس کے مطابق ٹیکس عائد کرے گا۔ براہ راست ٹیکس وصولی کیلئے ہی دنیا بھر میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس نظام کے ذریعے ٹیکسٹائل اور اپیریل انڈسٹری کی پیداوار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق درست طور پر ٹریس کرنے میں مدد ملے گی۔

ایک این جی او کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم مثبت نتائج دے رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پہلی بار تمباکو کے شعبے میں غیر قانونی تجارت میں 15 فیصد کمی آئی ہے۔

ریئل ٹائم پروڈکشن مانیٹرنگ کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی صلاحیت روایتی سابقہ ​​آڈیٹنگ کے طریقوں سے مختلف ہے۔ یہ ٹیکس حکام کو تازہ ترین اور جامع ڈیٹا تک رسائی کے قابل بناتا ہے جس سے ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ممکن ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here