اسلام آباد: وفاقی حکومت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے کہا ہے کہ وہ صارفین سے بجلی کے نرخوں میں 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ اضافہ آئندہ 6 ماہ کے دوران وصول کرے۔
یہ چونکا دینے والا انکشاف نیپرا کی عوامی سماعت کے دوران سامنے آیا جہاں یہ بتایا کیا گیا کہ پہلے بجلی کے نرخوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے متعدد صنعتی یونٹس بند ہو گئے تھے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی طلب میں نمایاں کمی واقع ہو گئی تھی۔ اسی طرح کے منظر نامے سے خوفزدہ ہوتے ہوئے حکومت نے خدشات کا اظہار کیا کہ بہت سے بجلی کے صارفین بجلی کے نرخوں میں 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ اضافے کے ساتھ اپنے بل ادا کرنے سے انکار کر دیں گے۔
نیپرا کے سامنے اپنے خدشات پیش کرتے ہوئے پاور ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ گزشتہ سال بجلی کے صارفین نے نرخوں میں نمایاں اضافے کے بعد اپنے بجلی کے بل ادا کرنے میں مزاحمت کی تھی اور اس بار انہوں نے ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے نیپرا سے گزارش کی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وصولی تین کی بجائے چھ ماہ کی مدت میں کی جائے تاکہ بجلی کے صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں زبردست اضافے کے اثرات سے نجات مل سکے۔ مزید برآں حکام نے اس بات پر زور دیا کہ وصولی کی مدت زیادہ ہونے سے بجلی کے بلوں کی وصولی میں کمی نہیں آئے گی۔
سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی۔ جنریشن (سی پی پی اے۔ جی) نے ایک پٹیشن کے ذریعے مالی سال 23-2022 کی چوتھی سہ ماہی کے لیے بجلی کی خریداری کی قیمت (پی پی پی) میں فرق کی بنا پر ڈسکوز کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں مذکورہ اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس اضافے کا ایک بڑا حصہ ان ایماندار صارفین سے 145 ارب روپے کی صلاحیت کی ادائیگیوں کی وصولی کرنا تھا جو اپنے بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں جبکہ یہ رقم ان پاور پلانٹس کے لیے مختص کی جائے گی جو اس مدت کے دوران غیر فعال رہے اور بجلی پیدا نہیں کی۔
عوامی سماعت کے دوران سی پی پی اے۔ جی کے حکام نے کہا کہ نیپرا پہلے 12 سے 15 ماہ تک بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وصولی کی منظوری دے رہا تھا۔ پہلے سے قائم اس مثال کو بنیاد بنا کرانہوں نے موقف اپنا یا کہ یہ عمل پہلے سے موجود ہے اور نیپرا کو چھ ماہ کے دوران بجلی کے نرخوں کی وصولی کی اجازت دینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں سردیوں کے موسم میں بجلی کی طلب کم ہونے کی وجہ سے بجلی کے نرخ 5 روپے 40 پیسے کے بجائے 3 روپے 55 پیسے فی یونٹ ہو جائیں گے۔
حکام نے یہ بھی کہا کہ صارفین ستمبر میں ختم ہونے والی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں 1 روپیہ 24 پیسے فی یونٹ اضافہ پہلے ہی ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے ستمبر سے 1 روپیہ 24 پیسے فی یونٹ اور اکتوبر سے 2 روپے 31 پیسے فی یونٹ اضافے کی وصولی کی تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے صارفین پر معمولی دبائو پڑے گا۔
ایک اور چونکا دینے والا انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے صارفین کو 5 ارب یونٹ کم بھیجے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زیر جائزہ مدت کے دوران طلب میں کمی واقع ہوئی تھی۔ بتایا گیا کہ بجلی کی طلب کو متاثر کرنے والے دو عوامل تھے: اول، موسم نے طلب کو متاثر کیا۔ دوم، بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے صنعتوں نے اپنے کاروبار بند کر دیے تھے۔
پاور ریگولیٹر نے بجلی کے کم استعمال میں ڈسکوز کے چیف ایگزیکٹو افسران (سی ای اوز) کی واضح ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار بھی کیا۔
مزید بتایا گیا کہ طلب میں کمی کی وجہ سے ہر ڈسکو سسٹم سے 600 سے 700 میگاواٹ کم بجلی نکال رہا ہے جبکہ کنکشنز کے ساڑھَے 3 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔ اور ریگولیٹر کے خیال میں ترقی کا تخمینہ حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔
بتایا گیا کہ ترقی کا تخمینہ گزشتہ سال کے اعداد و شمار کی بنیاد پر لگایا گیا تھا جب موسم بہت زیادہ گرم تھا۔ تاہم، ریگولیٹر نے زیر جائزہ مدت کے دوران بجلی کی کم فروخت کی وضاحت طلب کی۔
نیپرا نے کہا کہ اس نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ صنعتی یونٹس ہونے کے باوجود فیصل آباد کی کمپنی بھی متاثر ہوئی۔
پاور ریگولیٹر نے چھ ماہ کی مدت کے دوران بجلی کے بلوں میں اضافے کی وصولی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔