برکس کیا ہے، کون سے ممالک اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور کیوں؟

396

لاہور: بڑی اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس گروپ کے سربراہان جنوبی افریقی شہر جوہانسبرگ میں 22 اگست سے 24 اگست تک 15ویں سربراہی کانفرنس کیلئے جمع ہیں۔ برکس گروپ میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

اس بلاک اور اس کے اراکین کے بارے میں کچھ اہم حقائق یہ ہیں۔

برکس کیا ہے؟

برکس کی اصطلاح سب سے پہلے2001 میں گولڈمین ساکس کے اس وقت کے چیف اکانومسٹ جم او نیل نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں استعمال کی تھی جس میں انہوں نے برازیل، روس، بھارت اور چین کی معیشتوں ترقی کی صلاحیت کو اجاگر کیا تھا۔ ابتداء میں  جنوبی افریقہ اس گروپ میں شامل نہیں تھا۔

اس بلاک کو 2009 میں ایک غیر رسمی کلب کے طور پر قائم کیا گیا تاکہ اس کے اراکین کو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے زیر تسلط عالمی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جا سکے۔ اس کی تخلیق کا آغاز روس نے کیا تھا۔

تاہم یہ گروپ اقوام متحدہ، ورلڈ بینک یا پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) جیسی باضابطہ کثیرالجہتی تنظیم نہیں ہے۔ رکن ممالک کے سربراہان مملکت اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار سالانہ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں جبکہ گروپ کی سربراہی ہر سال کسی ایک ملک کو ملتی ہے۔

برازیل، روس، بھارت اور چین اس کے بانی ارکان ہیں جبکہ جنوبی افریقہ اقتصادی طاقت اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے رکن کے طور پر 2010 میں اس بلاک کی توسیع کا پہلا فائدہ اٹھانے والا ملک تھا جب اس گروپ کو پرکس کے نام سے جانا گیا۔

برکس کے رکن ممالک ایک ساتھ مل کر دنیا کی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ اور عالمی معیشت کا ایک چوتھائی تشکیل دیتے ہیں۔ جغرافیائی سیاست کے علاوہ گروپ کے مقاصد میں اقتصادی تعاون اور کثیرالجہتی تجارت اور ترقی کو بڑھانا شامل ہے۔

بلاک اتفاق رائے سے کام کرتا ہے۔ تمام برکس ممالک بڑی معیشتوں کے گروپ 20 (G20) کا حصہ بھی ہیں۔

کون سے ممالک برکس میں شامل ہونا چاہتی ہیں؟

2023 میں جنوبی افریقہ میں ہونیوالی سربراہی کانفرنس کے مطابق ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ارجنٹائن، الجزائر، بولیویا، انڈونیشیا، مصر، ایتھوپیا، کیوبا، جمہوریہ کانگو، گبون اور قازقستان سمیت 40 سے زائد ممالک نے اس فورم میں شامل ہونے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

وہ برکس کو عالمی اداروں کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں جو روایتی مغربی طاقتوں کے زیر تسلط ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس کی رکنیت سے ترقیاتی مالیات ، تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ سمیت کئی فوائد حاصل ہوں گے۔

ترقی پذیر ممالک میں عالمی نظم و نسق کے بارے میں عدم اطمینان کورونا وبا کے وقت سے بڑھ گیا جب امیر ممالک کی جانب سے زندگی بچانے والی ویکسین کی مساوی تقسیم پر سوالات اٹھائے گئے۔

ایران، جو مشرق وسطیٰ کے تیل کے تقریباً ایک چوتھائی ذخائر کا مالک ہے نے کہا ہے کہ اسے امید ہے کہ نئی رکنیت کا طریقہ کار “جلد از جلد” طے کر لیا جائے گا۔

سعودی عرب ان ایک درجن سے زائد ممالک میں شامل تھا جنہوں نے جون میں کیپ ٹاؤن میں ہونے والے “فرینڈز آف برکس” مذاکرات میں حصہ لیا۔ اسے برکس میں شامل ہونے کے لیے روس اور برازیل کی حمایت حاصل ہے۔ ارجنٹائن نے جولائی 2022 میں کہا تھا کہ اسے گروپ میں شامل ہونے کے لیے چین کی باضابطہ حمایت حاصل ہوئی ہے۔

ایتھوپیا، جو افریقہ کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے، نے جون میں کہا تھا کہ اس نے بلاک میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ملک ان بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام جاری رکھے گا جو اس کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔

بولیویا کے صدر لوئس آرس نے بھی برکس کی رکنیت میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور توقع ہے کہ وہ سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ ان کی حکومت نے جولائی میں کہا تھا کہ وہ غیر ملکی تجارت کے لیے امریکی ڈالر پر انحصار کو روکنے اورچینی یوآن کی طرف رجوع کے لیے پرعزم ہے، برکس رہنماؤں کے بیان کردہ مقصد کے مطابق امریکی کرنسی پر انحصار کم کرنا ہے۔

الجزائر نے جولائی میں کہا کہ اس نے برکس کی رکنیت اور نیو ڈیولپمنٹ بینک میں شیئر ہولڈر بننے کے لیے درخواست دی ہے۔ شمالی افریقی ملک تیل اور گیس کے وسائل سے مالا مال ہے اور اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور چین اور دیگر ممالک کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here