کراچی کے علاقہ کلفٹن کے ساحل کے بالکل نزدیک ’’فار یو رئیل ٹریڈرز لمیٹڈ‘‘ نامی کمپنی کا دفتر ہے جو ہر وقت ایسے ممکنہ کلائنٹس سے بھرا نظر آتا ہے جو مختصر مدت میں اپنی کمائی کو دوگنا کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق مذکورہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اگر کوئی انہیں ایک لاکھ روپے جمع کرائے تو اسے ماہانہ تقریباََ 8 فیصد سے 10 فیصد منافع ملے گا اور آپ ایک سال بعد اپنی اصل رقم واپس لے سکتے ہیں یا اس سے دوبارہ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ’’سرمایہ کاری سکیم‘‘ کے تحت منافع کی ایک غیرمعمولی شرح کا وعدہ کیا جاتا ہے جو سالانہ 96 فیصد سے 120 فیصد تک ہے حالانکہ روایتی بینک بچت اکاؤنٹ پر سالانہ تقریباً 22 فیصد منافع دیتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک ’پونزی سکیم‘ ہے لیکن اس لحاظ سے پرکشش ہے کہ ہر سوال کا جواب تیار رکھا گیا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا کمپنی سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ ہے؟ کمپنی انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ ’’یقینا، ہم (ایس ای سی پی میں) رجسٹرڈ ہیں اور اس کا ثبوت ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘ ایف بی آر کے متعلق سوال پر ٹیکس نمبر نکال کر سامنے رکھ دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ ماہانہ 10 فیصد منافع اس لیے ادا کر پاتے ہیں کیونکہ وہ لودھراں کی تحصیل دنیا پور میں سینکڑوں مویشیوں پر مشتمل ایک بڑا ڈیری فارم چلاتے ہیں اور نیسلے کو دودھ بیچتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر نیسلے کے ساتھ معاہدے کی نقل بھی فراہم کر دی گئی۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ کمپنی کے کراچی اور لاہور میں دفاتر قائم ہیں۔ خاتون نمائندہ کے مطابق ان کے کلائنٹس کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہے اور مجموعی ڈیپازٹس کا اندازہ نہیں لیکن انہوں نے اندازاََ بتایا کہ مارچ 2022ء، جب کمپنی کو ایف بی آر اور ایس ای سی پی میں رجسٹر کیا گیا، سے اَب تک 25 کروڑ روپے سے زائد کی ’سرمایہ کاری‘ جمع کر چکی ہے۔
اگر یہ کمپنی ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، ٹیکس دہندہ ہے، ڈیری فارم کا قانونی کاروبار چلاتی ہے اور دودھ کی سب سے بڑی فروخت کنندہ (نیسلے) کے ساتھ کاروباری معاہدے میں ہے تو پھر بھی اس کے معاملات مشکوک کیوں ہیں؟
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی کمپنی یا ادارہ، خواہ وہ رجسٹرڈ ہو یا غیر رجسٹرڈ، لوگوں سے سرمایہ کاری نہیں لے سکتا اور نا منافع کا وعدہ کر سکتا جب تک کہ اسے ایس ای سی پی یا سٹیٹ بینک سے لائسنس نہ مل جائے۔ باالفاظِ دیگر ایس ای سی پی یا ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہونے سے کسی کمپنی کو عوام سے پیسہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں مل جاتی۔
ایس ای سی پی کے ترجمان نے بتایا کہ محمد ساجد حسین کی ملکیت ’’فار یو رئیل ٹریڈرز‘‘ کو ایسی سرمایہ کاری کی سکیمیں چلانے کی اجازت نہیں لہٰذا لوگوں کو اپنا پیسہ لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس معاملے کو کمپنی اور اس کے کرتا دھرتائوں کے ساتھ اٹھانے کی کوشش کی تاہم ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
ایس ای سی پی ترجمان نے مزید بتایا کہ ریگولیٹر نے کمپنیوں کے رجسٹر سے ’’فار یو رئیل ٹریڈرز‘‘ کا نام نکالنے کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ بعد ازاں اس کا نام مشکوک کمپنیوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا تاکہ عوام باخبر رہیں۔
دوسری جانب نیسلے کا کہنا ہے کہ اس کے سینکڑوں سپلائرز ہیں تاہم وہ اس کا کا نام، لوگو یا کسی بھی برانڈ کو اپنی ذاتی بات چیت میں استعمال کرنے کے مجاز نہیں۔ اس معاملے کا جائزہ لے کر کارروائی شروع کی جائے گی۔
ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کو ہر اس مالیاتی سکیم کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے جو بہت زیادہ پرکشش لگے۔ ماہر اقتصادیات عمار ایچ خان کے مطابق ’’کوئی بھی جائز سرمایہ کاری سکیم سالانہ 15، 20 فیصد سے زیادہ منافع کی پیشکش نہیں کرتی۔‘‘
’’دوسرے لفظوں میں اگر کلیدی شرح سود 22 فیصد ہے تو کوئی بھی حقیقی کاروبار منافع کی شرح 42 فیصد سے زیادہ دے ہی نہیں سکتا۔ اگر کوئی آپ سے اس سے زیادہ منافع کا وعدہ کرتا ہے تو لازمی طور پر شک کریں۔‘‘