پاکستان میں منتخب حکومتیں مختصر المدتی پالیسیاں بنانے پر اکثر تنقید کی زد میں رہتی ہیں۔ تاہم اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے وژن 2010ء اور وژن 2025ء جیسی پالیسی دستاویزات فراہم کرکے ہمیشہ طویل المدتی منصوبہ بندی کو ترجیح دی۔
سابق وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال لکھتے ہیں کہ بہت بڑے سماجی، اقتصادی اور آئینی مسائل کے باوجود 9 اگست کو ختم ہونے والی حکومت نے بھی 5Es فریم ورک کے نام سے ایک طویل المدتی پالیسی فریم ورک تیار کیا ہے۔ یہ فریم ورک پانچ ترجیحی شعبوں میں اقتصادی بحالی کے لیے ایک ٹھوس راستہ پیش کرتا ہے:
1۔ برآمدات (exports)
2۔ ای پاکستان (e-Pakistan)
3۔ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی (environment)
4۔ توانائی اور بنیادی ڈھانچہ (energy & infrastructure)
5۔ مساوات اور بااختیار بنانا۔ (Equity & empowerment)
میرا پختہ عزم ہے کہ اس فریم ورک پر بیک وقت عمل کر کے ذریعے ہم ملک کو پائیدار اور طویل المدتی اقتصادی ترقی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔
تقسیم شدہ معاشرے میں وسیع اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ہم نے نہایت غوروخوص اور طویل مشاورت کے بعد یہ فریم ورک تیار کیا۔ اس سلسلے میں وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات نے جون 2022ء میں وزیراعظم کی زیر صدارت پاکستان ٹرن اراؤنڈ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس نے ہمیں معاشی بحالی کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کیلئے وسیع رہنمائی فراہم کی۔
پلاننگ کمیشن نے کانفرنس میں ہونے والے غور و خوض اور متعلقہ وزارتوں، محکموں اور تعلیمی اداروں سے اضافی اِن پٹ کی بنیاد پر پانچ نکاتی ترجیحی فریم ورک تیار کیا۔ یہ فریم ورک کثیرالجہتی حکمت عملیوں اور متعدد اقدامات پر مشتمل ہے جس پر عمل کرکے پاکستان کو مختصر سے درمیانی مدت میں پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اقدامات پہلے ہی نفاذ کے مرحلے میں ہیں اور انہیں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 24-2023ء میں شامل کیا گیا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پاکستان کو ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار کر دیا تھا جس میں بڑے کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارے، ہوشربا مہنگائی، ملکی کرنسی کی بے قدرر اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی شامل ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے معاشی بحالی اتحادی حکومت کی اولین ترجیح رہی۔ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع مشاورت کے ذریعے مسلسل معاشی بحران کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی گئی۔ ان میں سب سے اہم بوم-بسٹ سائیکلز کا ساختی مسئلہ تھا، ہر معاشی سرگرمی کے پیچھے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا اور قرضوں سے ملکی معاملات چلائے گئے۔ گویا معیشت کو مسلسل دوہرے خسارے کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے شرح نمو رُک گئی۔
اس فریم ورک کا پہلا ای (E) برآمدات ہیں۔ گلوبل ساؤتھ کی تمام کامیاب معیشتوں مثال کے طور پر چین، ویتنام اور جنوبی کوریا نے برآمدات کے فروغ پر مبنی ترقی کے ماڈل کا انتخاب کیا۔ پاکستان نے تاریخی طور پر درآمدات پر مبنی کھپت پر انحصار کیا جس کی وجہ سے ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ اَب ہمیں ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈالر لانے کیلئے برآمدات کو بڑھانا ہو گا۔ پیداواری صلاحیت میں اضافہ، متنوع مصنوعات اور مارکیٹ کے فروغ، برانڈز کی ترقی اور تجارت پر زور دے کر معیشت کو مسابقتی رکھنا ہوگا۔
سبکدوش ہونے والی حکومت نے برآمدات کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات شروع کیے، جن میں پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے اے پی او اور کے ڈی آئی کے تعاون سے نیشنل پروڈکٹیوٹی کا ماسٹر پلان، وسطی ایشیائی اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تجارتی معاہدے اور علاقائی تجارت کو بہتر بنانے کے لیے ایران کے ساتھ سرحدی منڈیوں کا قیام، ٹیرف کو معقول بنانا، ایکسپورٹ ریڈی نیس پروگرام کا آغاز، ٹریڈ مارک رجسٹریشن کے لیے جی آئی قانون کا نفاذ، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے ای تجارت اور ای کامرس ایکسپورٹ فریم ورک، اور پاکستان میں کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے کیلیے بورڈ آف انویسٹمنٹ کا پاکستان ریگولیٹری ریفارم انیشی ایٹو شامل ہیں۔
فریم ورک کا دوسرا ای (E) دراصل ‘ای پاکستان’ (E-Pakistan) ہے جس کا مقصد انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیلی لا کر ڈیجیٹل معیشت کی تعمیر اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو فروغ دینا ہے۔ فی الحال پاکستان کی آئی سی ٹی برآمدات کا تخمینہ 2.5 ارب ڈالر سے زائد ہے جو علاقائی حریفوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں موجودہ افرادی قوت تقریباً 6 لاکھ 25 ہزار ہے جن میں فری لانسرز بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹیاں تقریباً ہر سال لگ بھگ 25 ہزار گریجویٹس تیار کرتی ہیں۔ دوسری جانب صرف روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کی عالمی مارکیٹ کا حجم 2030 تک 563 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔
جدید ڈیجیٹل خدمات کی تیزی سے فراہمی کے لیے بنیادی ڈھانچے اور ادارہ جاتی فریم ورک کے ساتھ ایک جامع ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام بنانے کے لیے حکومت نے ای کامرس پالیسی تشکیل دی اور نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا قیام، نیشنل انکیوبیشن سینٹرز، نیشنل سینٹر آف روبوٹک جیسے کئی اقدامات کیے ہیں۔ اسی طرح آٹومیشن، نیشنل سینٹر فار سائبر سکیورٹی، اے آئی میں سینٹر فار ایکسی لینس کا قیام جیسے اقدامات سے آئی ٹی سیکٹر کو فروغ ملے گا۔ خدمات کی فراہمی میں بہتری آئے گی اور معاشی خوشحالی میں مدد ملے گی۔
فریم ورک کا تیسرا ای (E) ماحولیات (Environment) اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہے جو ماحولیاتی چیلنجز اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان کو ماحولیات، آبی وسائل اور غذائی تحفظ کی پائیداری کو یقینی بنانے میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے ان چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ 2021 کے موسمیاتی رسک انڈیکس میں پاکستان کو آٹھویں یعنی سب سے زیادہ ممکنہ خطرے سے دوچار درجے میں کیوں رکھا گیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور آبی وسائل کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو جلد ہی پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ دہائی کے دوران ملک میں خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس سے فوری طور پر غذائی تحفظ کے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
سبکدوش ہونے والی حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں کلین گرین پاکستان انیشی ایٹو، نیشنل کلین ایئر پالیسی 2023، ریزیلئینٹ، ریکوری، ری ہیبیلی ٹیشن، ری کنسٹرکشن سٹریٹیجی، سندھ کوسٹل ریزیلینس پراجیکٹ، مختلف شہروں کے لیے گرین انفراسٹرکچر، گلگت بلتستان میں دیہی ترقی اور موسمیاتی اقدامات میں اضافہ اور بلوچستان میں روزگار کے متنوع منصوبے شامل ہیں۔ فوڈ اور واٹر سکیورٹی پراجیکٹس میں عمودی کاشتکاری، ری جنریٹو فارمنگ، چاول، گنے اور گندم کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ، ناؤلونگ ڈیم پراجیکٹ، سندھ واٹر اینڈ ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پراجیکٹ اور بائیو میڈیشن کے ذریعے آلودہ پانی کی صفائی شامل ہیں۔
فریم ورک میں شامل چوتھا ای (E) توانائی (Energy) ہے۔ توانائی کی قلت نے پاکستان کے سماجی و اقتصادی استحکام کو طویل عرصے سے دوچار کر رکھا ہے۔ 2013 سے 2018 تک پاکستان نے اس قلت کو پورا کرنے کے لیے سی پیک کے تحت ایک اہم اقدام اٹھایا جس سے انرجی مکس میں 12 ہزار 230 میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے علاوہ مٹیاری سے لاہور تک 4 ہزارمیگاواٹ صلاحیت کی ٹرانسمیشن لائن نے گرڈ انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا۔ حکومت نے کوئلہ، پانی اور قابل تجدید ذرائع سمیت بجلی کی پیداوار میں نمایاں سرمایہ کاری کی ہے۔ گرین بلڈنگ کوڈز اور آب و ہوا سے لچکدار انفراسٹرکچر جیسے اقدامات سستی اور پائیدار توانائی کے حل کو یقینی بنائیں گے۔
ہوا، شمسی اور ہائیڈرو پاور جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کرکے توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ٹھوس کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے اور گرین انرجی کے شعبے میں نجی سرمایہ کو راغب کرکے 2025ء تک گرین انرجی کی کا حصہ 20 فیصد اور 2030 تک 30 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ نتیجتاً اس اقدام کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
اسی طرح تھر کے کوئلے جیسے مقامی ذرائع جو پہلے ہی قومی گرڈ میں 1,320 میگاواٹ کا حصہ ڈال رہے ہیں، کو موثر اور ماحولیاتی ذمہ دارانہ انداز میں استعمال کیا جائے گا۔ توانائی کی کارکردگی اور تحفظ ایک اور ترجیح ہے جو پاکستان کو اپنی بنیادی توانائی کی فراہمی کا 10 سے 15 فیصد تک بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن پالیسی 2023 کا آغاز کیا گیا ہے۔
فریم ورک کا پانچواں ای (E) ایکویٹی (Equity) اور خود مختاری (empowerment) ہے۔ فریم ورک کا یہ مرحلہ جامع اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں ایکویٹی کی بنیادی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں عالمگیر پالیسیوں، مثبت اقدامات، اور ٹارگٹڈ مداخلتوں کے تزویراتی امتزاج کی سفارش کرتا ہے۔ تمام شہریوں کے لیے قابل رسائی اور اعلیٰ معیار کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کی خدمات کو یقینی بناتے ہوئے متعدد مداخلتیں آبادی کی منصوبہ بندی کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ صحت کے شعبے میں اصلاحات کا مقصد یونیورسل ہیلتھ کوریج، ہیپاٹائٹس، ذیابیطس اور پولیو کے خاتمے کے لیے قومی پروگرام، کینسر کے علاج کے لیے پولیس ہسپتالوں اور سرکاری ہسپتالوں کی تعمیر، غذائیت کے پروگراموں کا نفاذ، خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی فراہمی، اور حفاظتی ٹیکوں کی کوریج کو وسیع کرنا ہے۔
تعلیم کے شعبے میں کلیدی مداخلتوں میں سکول سے باہر بچوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک قومی فنڈ کا قیام، اسلام آباد میں یونیورسل انرولمنٹ حاصل کرنا، ورچوئل سکولنگ اور فاصلاتی تعلیم کے پروگرام متعارف کروانا، نصاب اور تشخیصی نظام میں اصلاحات، یو ایس پاکستان کی ترقی شامل ہیں۔ نالج کوریڈورعالمی سطح پر درجہ بندی کی ٹاپ 25 یونیورسٹیوں کے لیے وظائف فراہم کرتا ہے، بلوچستان اور سابق فاٹا کے علاقوں کے طلبہ کو 5 ہزار اعلیٰ تعلیمی وظائف فراہم کرتا ہے، اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں یونیورسٹی کیمپس کو بڑھا رہا ہے۔
نوجوانوں، خواتین اور معذور افراد کیلئے نمایاں اقدامات میں مہارتوں کی ترقی کے پروگرام، بااختیار نوجوان انٹرن شپ پروگرام کے تحت 60 ہزار انٹرنشپ، پی ایم لیپ ٹاپ سکیم کے تحت 1 لاکھ لیپ ٹاپ، ایک اختراعی فنڈ، بلا سود قرضہ، اور کھیلوں کیلئے گرائونڈز یا سپورٹس کمپلیکسز کی تعمیر شامل ہیں۔ اسی طرح خواتین کے لیے موبلٹی سپورٹ سکیم کو نافذ کرنا اور مختلف معذور افراد کے لیے خصوصی تعلیم اور تکنیکی تربیتی مراکز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ مزید برآں، علاقائی مساوات کو فروغ دینے کے لیے 20 پسماندہ ترین اضلاع میں سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک خصوصی ترقیاتی سکیم پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
مختصراً، یہ پانچ نکاتی فریم ورک پاکستان کی معیشت کا رخ موڑنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اپنے معاشی چیلنجز پر قابو پانے اور عالمی سطح پر ایک متحرک اور خوشحال ملک کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ برآمدات، ڈیجیٹل تبدیلی، ماحولیاتی پائیداری، توانائی کے تنوع اور جامع ترقی پر توجہ دے کر پاکستان پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔
اس فریم ورک کو نافذ کرنے کے لیے تمام اہم سٹیک ہولڈرز کی طرف سے مضبوط عزم کے اظہار کی ضرورت ہے۔ ہمیں پولرائزڈ اور نفرت پر مبنی سیاست سے ماورا ہوکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ضروری سٹرکچرل اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے پرعزم رہنا چاہیے تب ہی پاکستان کو معاشی خوشحالی کے پائیدار راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔
تحریر: احسن اقبال