مالیاتی شمولیت: پاکستان میں کتنے فیصد خواتین بینک اکاؤنٹ ہولڈر ہیں؟

247
female financial inclusion

لاہور: پاکستان میں خواتین کی مالیاتی شمولیت کے اعدادوشمار قدرے مایوس کن ہیں۔ کارانداز (Karandaaz) کے  ’’مالیاتی شمولیت سے متعلق سروے‘‘ کے مطابق محض 13 فیصد پاکستانی خواتین کے بینک اکائونٹس ہیں۔ اگرچہ یہ عدد 2017ء کی نسبت کچھ بہتر لیکن اب بھی ہدف سے کم ہے کیونکہ گزشتہ سالوں کے دوران خواتین کی مالیاتی شمولیت بڑھانے کیلئے کافی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن سالہا سال کی پالیسی سازی، وائٹ پیپرز کی اشاعت اور کانفرنسوں کے انعقاد کے باوجود بہ مشکل ہی پاکستانی خواتین کی مالیاتی شمولیت پر کوئی مثبت اثر پڑا ہے۔ 

تاہم مارکیٹ انٹیلی جنس پلیٹ فارم ’’ڈیٹا دربار‘‘ کے مطابق اگر آپ سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار پر یقین کریں تو خواتین کی مالیاتی شمولیت کے حوالے سے نمایاں پیشرفت ہوئی ہے اور جون 2017 میں خواتین کے بینک کھاتوں کی تعداد ایک کروڑ 3 لاکھ سے بڑھ کر دسمبر 2022ء تک 4 کروڑ 59 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ سالوں میں دو گنا زیادہ خواتین کے بینک اکائونٹس کھولے گئے۔ نتیجتاً دسمبر 2022ء تک ملک کی بالغ آبادی میں بینک اکائونٹس رکھنے والی خواتین کی تعداد 67.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ جون 2017ء میں یہ تعداد 22 فیصد تھی۔ یہ حیران کن بڑھوتری ہے لیکن کسی قدر مشکوک بھی ہے کیونکہ بڑھوتری کا یہ عدد ورلڈ بینک کی 2021 کی رپورٹ میں شائع کیے گئے اندازے سے چھ گنا بڑا ہے۔ اتنا بڑا فرق قابلِ اعتراض ہے اور یہ سروے کے طریقہ کار یا پھر بتائے گئے اعدادوشمار میں کسی قسم کی گڑ بڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ 

ڈیٹا دربار نے اس کی مزید تفصیلات جاری کرتا ہوئے لکھا ہے کہ دسمبر 2022 میں خواتین کے فعال بینک اکائونٹس کی تعداد ساڑھے 3 کروڑ تھی جبکہ 2017 میں یہ تعداد 84 لاکھ تھی۔ یوں بالغ آبادی میں سے فعال بینک اکائونٹس رکھنے والی خواتین کی تعداد دسمبر 2022ء میں 45 فیصد تک پہنچ گئی، یہ تعداد جون 2017ء کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے بلکہ یہ فعال بینک اکائونٹس رکھنے والے مردوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ 

اکاؤنٹس کی مجموعی تعداد یا فعال اکائونٹس کی تعداد دونوں پیمانے ہی ٹھیک نہیں کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس ایک سے زائد اکاؤنٹ ہوتے ہیں۔

سٹیٹ بینک کے مطابق 2022ء تک خواتین ڈپازٹرز کی کل تعداد 2 کروڑ 80 لاکھ تھی۔ اُن میں سے 2 کروڑ 10 لاکھ فعال تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین ملک کے کل ڈپازٹرز کا تقریباً 35 فیصد ہیں۔ یا پھر اسے یوں سمجھیں کہ ملک کی کل بالغ خواتین میں سے 39 فیصد کا کم از کم ایک بینک اکاؤنٹ ہے۔ تعداد جتنی بھی ہو، ان اکاؤنٹس کے معیار کا اندازہ کچھ دیگر پیمانوں سے لگانا چاہیے۔ سب سے پہلے یہ کہ 2 کروڑ 80 لاکھ یا 62.5 فیصد، یہ خواتین کے وہ اکائونٹس ہیں جو برانچ لیس ہیں بلکہ مردوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو برانچ لیس اکائونٹس کی تعداد 59 فیصد ہے۔ اچھی بات ہے کہ جاز کیش اور ایزی پیسہ جیسے موبائل منی والٹس بینکوں کے چھوڑے گئے خلا کو پُر کر رہے ہیں۔ 

دوم، دسمبر 2022ء تک ڈیبٹ کارڈز رکھنے والی خواتین کی تعداد صرف 62 لاکھ تھی۔ یہ تعداد ملک میں جاری کیے گئے کل ڈیبٹ کارڈز کا 19 فیصد ہے۔ اسے ایک اور انداز میں سمجھیں کہ خواتین کے صرف 36 فیصد بینک اکاؤنٹس کے ساتھ ڈیبٹ کارڈ موجود ہیں جبکہ مردوں کے حوالے سے یہ تعداد 55 فیصد ہے لہٰذا جب خواتین کے پاس بینک اکاؤنٹ موجود ہیں تو انہیں ڈیبٹ کارڈ جیسی بنیادی سہولت میسر کیوں نہیں؟

اگر ہم مندرجہ بالا اعدادوشمار کو دیکھیں تو پاکستان میں خواتین کی مالیاتی شمولیت کی سطح اُس سے کہیں بہتر ہوئی ہے جو پہلے نظر آتی تھی بلکہ ہماری کارکردگی بظاہر انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسی ہم مرتبہ مارکیٹوں سے بھی بہتر ہے۔ یہ سننے میں اچھا لگتا ہے۔

تاہم اعدادوشمار کی درست فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جیسا کہ 2021ء کے اعدادوشمار غائب ہیں۔ یہ وہ سال ہے جب خواتین کی مالیاتی شمولیت کے حوالے سے زیادہ تر پیشرفت ہوئی۔ مثال کے طور پر 2020ء اور 2022ء کے درمیان مردوں اور عورتوں دونوں کے فعال اکاؤنٹس دوگنا سے بھی زیادہ ہو گئے لیکن اس تیز رفتار اضافے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔ 

ڈیٹا دربار نے نشاندہی کی کہ کچھ اعدادوشمار شامل ہی نہیں کیے گئے۔ مثال کے طور پر جون 2019ء میں خواتین اور مردوں کے اکاؤنٹس ملا کر تعداد 6 کروڑ 20 لاکھ بتائی گئی لیکن ملک میں کل بینک اکاؤنٹس تقریباََ 9 کروڑ 29 لاکھ ہیں تو 3 کروڑ 90 لاکھ اکاؤنٹس کہاں گئے؟ 

ہم واقعی نہیں جانتے کیونکہ تعداد اتنی بڑی ہے کہ کارپوریٹ اور نان بینکنگ فنانشل انسٹی ٹیوشن (این بی ایف آئی) اکاؤنٹس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ یہ بہت آسان ہوتا اگر سٹیٹ بینک بینکنگ آن ایکوالٹی (Banking on Equality) کی پالیسی پر عمل کرتا اور ڈیٹا کو صنفی تفریق کے لحاظ سے جاری کرتا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here