بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، مستقبل میں غیر متوقع اثرات سامنے آ سکتے ہیں

428

لاہور: شاید آئی ایم ایف کی سب سے خطرناک شرط بجلی مہنگی کرنے کی ہے کیونکہ اس کا تجزیہ کریں تو وہ سب کچھ سامنے آ سکتا ہے جو واپڈا کیلئے چار دہائیوں سے ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے۔

اور یہ سب ہو بھی اُس وقت رہا ہے جب پاور سیکٹر میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے آٹھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے مالک واپڈا کو ویسے ہی کاروبار لحاظ سے ناقابل عمل قرار دے دیا جائے۔

بجلی کے نرخوں میں اضافہ رواں ماہ سے نافذالعمل ہے۔ اگرچہ ساڑھے 7 روپے فی یونٹ بھی بہت زیادہ ہے تاہم یہ محض شروعات ہے۔ نرخ 50 روپے تک بڑھ سکتے ہیں اور اوسط قیمت 75 روپے فی یونٹ تک جا سکتی ہے۔ پہلے ہی اوسط قیمت 25 روپے فی یونٹ ہے جبکہ آئی ایم ایف ٹیرف میں تین گنا اضافہ چاہتا ہے۔

ماضی میں بجلی کی اس سے کم قیمت پر بھرپور عوامی احتجاج ہوئے اور ایک تقسیم کار کمپنی کے دفتر پر حملہ بھی ہوا۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ بجلی کا بل زیادہ آنے پر دلبرداشتہ ہو کر کسی صارف نے خودکشی کر لی۔ اگرچہ احتجاج یا بجلی دفاتر پر حملے جیسے کئی واقعات زیادہ بلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ گرمیوں میں طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہوئے۔

واپڈا صرف بجلی بنانے والا محکمہ نہیں بلکہ یہ پانی کے حوالے سے بھی کام کر رہا ہے۔ درحقیقت واپڈا امریکا کی ٹینسی ویلی اتھارٹی (Tennessee Valley Authority) کی طرز پر قائم کیا گیا۔ مذکورہ اتھارٹی نے دریائے ٹینسی کے پانی سے بجلی بنانے کیلئے 9 ڈیم بنائے اور سیلاب سے بچائو کے اقدامات کیے۔ واپڈا کو بھی ناصرف دریائے سندھ کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے قائم کیا گیا تھا بلکہ آبپاشی اور بجلی بنانے کیلئے پانی فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی۔

ٹینیسی ویلی اتھارٹی کی طرح واپڈا بھی پاور کمپنی بن گئی۔ امریکی کمپنی آج نیو کلئیر انرجی، کوئلے اور گیس سے بجلی بنانے کے کئی پلانٹس چلا رہی ہے اور امریکی حکومت کی ملکیت ہے۔ دراصل یہ امریکی اتھارٹی وہی کام کرتی ہے جو پاکستان میں جینکوز (Gencos) کرتی ہیں۔ اس کی صارف بھی زیادہ تر تقسیم کار کمپنیاں ہیں۔

تاہم واپڈا کی نجکاری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ واپڈا نے آج تک صرف پن بجلی کے منصوبے لگائے ہیں اور گزشتہ چار دہائیوں سے تھرمل پراجیکٹس نجی شعبے یعنی انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے پاس ہیں۔ پاکستان میں پاور سیکٹر کے اہم مسائل میں سے ایک کپیسٹی پیمنٹس (capacity payments) کا مسئلہ بھی ہے جس کا تعلق آئی پی پیز کیلئے ریٹ آف ریٹرن (rate of return) سے ہے جس کی گارنٹی حکومت نے دی تھی اور اس کا بوجھ بھی سرکاری خزانے پر ہے۔ اسی پر آئی ایم ایف کو تشویش ہے کہ حکومت ادائیگیوں کے قابل ہے یا نہیں۔

80ء کی دہائی سے لوڈشیڈنگ پاکستانی حکومتوں کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ مسلسل بڑھتی طلب کے ساتھ حکومتیں بجلی کی پیداوار برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں اور پانی سر سے گزرنے پر گھبراہٹ میں آئی پی پیز سے رجوع کرتی رہی ہیں۔ اس کیلئے تھر کا کوئلہ بھی کام میں لایا گیا جو آلودگی پھیلانے کی وجہ سے اپنے آپ میں ایک اور بڑا مسئلہ ہے کیونکہ دنیا گرین انرجی کی طرف جا رہی ہے۔

اسی طرح فرنس آئل درآمدی بل پر بوجھ ڈالتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ درآمدی بل برآمدات کی وجہ سے متوازن کر لیا جاتا تھا لیکن برآمدات میں کمی کے ساتھ یہ ذریعہ بھی ختم ہو گیا۔

فرنس آئل کی درآمدات گردشی قرضے میں اضافے کا باعث بھی ہیں۔ یہ قرض بہت بڑا ہے۔ اپریل میں تقریباً 2.6 ٹریلین روپے تھا اور بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس قرض کے پیچھے بھی کپیسٹی پیمنٹس کا ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف گردشی قرضے کی ادائیگی چاہتا ہے اور حکومت مجبور ہے کہ یہ پیسہ صارفین کی جیبوں سے نکلوائے۔

دراصل حکومت کو بجلی مہنگی کرنے کا آئیڈیا تب آیا تھا جب لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی اور اس عظیم آئیڈیا کے پیچھے سائنس یہ تھی کہ قیمتیں بڑھنے سے بجلی کی طلب کم ہو جائے گی۔ تاہم یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ اگر واپڈا نے اس آئیڈیا پر عمل کیا تو اس کے اثرات ناگزیر اور غیر متوقع ہوں گے۔

جیسا کہ بجلی بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ اس لیے ٹیرف کا ردوبدل اس کی طلب کو متاثر نہیں کرتا۔ اگر ٹیرف نیچے جاتا ہے تو کھپت نہیں بڑھے گی۔ اگر یہ اوپر جاتا ہے تو کھپت کم نہیں ہو گی۔ تاہم ایسا ایک حد تک ہوتا ہے۔ شائد کسی وقت بڑی تعداد میں صارفین بجلی کے کنیکشن ہی منقطع کر دیں اور واپڈا کے پاس صارفین کی تعداد بہت کم رہ جائے۔ تاہم بڑے پیمانے پر بجلی کے کنیکشن ختم کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ انتہائی قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔

پاکستان میں بجلی کے بھاری بلوں سے گھبرا کر ہمسایہ ملک کی طرح  تاحال کسی کسان نے خودکشی نہیں کی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت میں کچھ کسانوں نے اس وقت خودکشیاں کیں جب وہ بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر تھے تاہم پاکستان میں خودکشی کے خلاف مضبوط مذہبی اور سماجی پابندیاں موجود ہیں لیکن کیا واپڈا یا حکومت محض اسی پر اکتفا کر سکتے ہیں۔؟

گزشتہ مالی سال میں بجلی کی پیداوار میں 9.5 فیصد کمی ناگزیر اور غیرمتوقع نتائج کی پہلی علامت کے طور پر ظاہر ہوئی۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اَب بھی کئی ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں بجلی نہیں پہنچی۔

ایک اور پیشرفت جو بجلی کے شعبے کو بدل کر رکھ دے گی، وہ ہے قابل تجدید توانائی۔ گھریلو صارفین کی اکثریت ابھی تک روائتی بجلی پر انحصار کر رہی ہے۔ چند لوگ شمسی توانائی پر منتقل ہوئے ہیں تاہم انہوں نے واپڈا کنیکشن بھی رکھا ہوا ہے کیونکہ واپڈا بجلی خریدتا بھی ہے تو سولر پینلز سے ضرورت سے زائد بننے والی بجلی واپڈا کو منتقل ہو جاتی ہے۔ یوں صارفین اگر رات کو واپڈا کی بجلی استعمال کریں بھی تو انہیں بل نہیں آئے گا یا کم آئے گا۔

لیکن اس کی وجہ سے ایک مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر صارفین واپڈا کو کم ادائیگی کریں گے تو اس کی کپیسٹی پیمنٹس کی صلاحیت محدود ہو جائے گی۔ اسی لیے واپڈا عموماََ گھریلو صارفین کی متبادل توانائی پر منتقلی کی حوصلہ شکنی کرتا نظر آتا ہے۔ واپڈا کے پاس شمسی توانائی سے بجلی بنانے کا کوئی منصوبہ بھی موجود نہیں حالانکہ اسے سب سے بڑا پروڈیوسر ہونا چاہیے تھا جس سے اس کی پیداواری لاگت کم ہو سکتی تھی۔

واپڈا کو بس کپیسٹی پیمنٹس کرنی ہیں اور اس کیلئے اسے صارفین کی جانب سے ادائیگیوں کو یقینی بنانا ہے۔ اگر پاکستان تیل و گیس سے بجلی پیدا کرنے کے دور سے نکل کر سبز معیشت بننا چاہتا ہے تو اسے آئی ایم ایف سے آزاد ہونا پڑے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ قطعاََ مسائل کا حل نہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here