پاکستان میں کل رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے صرف 2.77 فیصد بیمہ شدہ، ’ہم یوگنڈا سے بھی پیچھے ہیں‘

320

لاہور: سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چونکا دینے والے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں کل 3 کروڑ رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے 2.77 فیصد یا 8.3 لاکھ گاڑیاں بیمہ شدہ (insured) ہیں۔ پاکستان بیمہ شدہ گاڑیوں کے معاملے میں بھارت، سعودی عرب، بنگلہ دیش، سری لنکا حتیٰ کہ یوگنڈا سے بھی پیچھے ہے۔ یہ انکشافات ایس ای سی پی کی جانب سے حال ہی میں ’’پاکستان میں تھرڈ پارٹی موٹر انشورنس کی حیثیت‘‘ کے عنوان سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 3 کروڑ رجسٹرڈ وہیکلز میں سے 2.3 کروڑ موٹر سائیکلیں جبکہ 70 لاکھ کاریں شامل ہیں۔ ان میں سے محض 12 ہزار 557 گاڑیوں کے پاس موٹر تھرڈ پارٹی (ایم ٹی پی) انشورنس ہے جبکہ 9 لاکھ گاڑیاں جامع (comprehensive) موٹر انشورنس کی حامل ہیں۔

دونوں قسم کی انشورنس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کے دائرہ کار میں کیا کچھ آتا ہے۔ ایم ٹی پی کسی تیسرے فریق کی وجہ سے گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کا احاطہ کرتی ہے جبکہ ’’جامع کار انشورنس‘‘ مالک کے ہاتھ سے گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کو بھی پورا کرتی ہے۔

جوبلی جنرل انشورنس کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین اظفر ارشد کہتے ہیں کہ موٹر انشورنس اس انڈسٹری میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور دنیا میں تقریباً 50 فیصد انشورنس گاڑیوں کی ہوتی ہے۔ جن علاقوں میں گاڑیاں زیادہ ہوں وہاں انشورنس کی مجموعی شرح بھی بلند ہوتی ہے تاہم پاکستان میں یہ شرح مایوس کن حد تک کم ہے۔

 دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان میں موٹر انشورنس اتنی کم کیوں ہے؟

اس حوالے سے اظفر ارشد نے کہا کہ “پاکستان میں یہ مسئلہ درحقیقت کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جن ملکوں میں گاڑیوں کی انشورنس کی شرح زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں یہ ایک قانونی تقاضا ہے۔ ایسے ملکوں میں آپ مستند انشورنس سرٹیفکیٹ کے بغیر گاڑی چلا سکتے اور نا گاڑی خرید سکتے ہیں۔ آپ کے پاس انشورنس پالیسی نہیں ہے تو آپ گاڑی رجسٹر نہیں کروا سکتے۔ بعض اوقات معمول کے چیک اَپ کے دوران بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے گاڑی کی انشورنس دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ نہیں تو پھر جرمانے اور سزائیں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ آسانی سے اُن ممالک کے درمیان فرق کر سکتے ہیں جہاں گاڑیوں کی انشورنس کی شرح کم ہے۔ ان ممالک میں جہاں عمل درآمد زیادہ ہے، آپ کو غیر معمولی طور پر زیادہ شرح نظر آئے گی۔ کیا اس کا جواب صرف گاڑیوں کی انشورنس کو لازمی بنانا ہے؟ بالکل نہیں۔

یونائیٹڈ انشورنس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور چیف آپریٹنگ آفیسر عامر حمید کہتے ہیں کہ ’’ملک میں ایک بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ اور بغیر لائسنس والی گاڑیاں موجود ہیں جن کے پاس کسی قسم کی انشورنس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لازمی انشورنس کو لاگو کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔‘‘ تاہم عامرحمید کا دعویٰ ہے کہ انشورنس کی شرح بڑھانے کیلئے اس سے آسان حل بھی موجود ہے۔

عامر حمید کے مطابق ’’پاکستان مین گاڑیوں کی انشورنس کی کم شرح کے پیچھے پہلی اور اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ موٹر انشورنس کی اہمیت اور فوائد سے متعلق عام لوگوں میں شعور کی کمی ہو۔ زیادہ تر افراد شاید یہ نہ سمجھ پا رہے ہوں کہ موٹر انشورنس سے اُن کی گاڑی کو حادثات، چوری یا نقصان کی صورت میں کیا مالی تحفظ مل سکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ لوگ شائد اضافی اخراجات کے بوجھ سے گھبراتے ہوں۔ بعض افراد موٹر انشورنس کو ایک اضافی خرچے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس پر دیگر مالی ذمہ داریوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ “بیمہ کی صنعت کی پیچیدگیاں اور انشورنس کے حصول کا عمل لوگوں کو موٹر انشورنس کرانے سے روک سکتا ہے۔ مختلف پالیسیوں، کوریج کے اختیارات اور طویل کاغذی کارروائی کبھی کبھار صارف کو پریشان کر دیتی ہے۔‘‘

یہ تمام خدشات بھی درست ہیں۔ تاہم ارشد اظفر روشنی ڈالتے ہیں کہ اگر مذکورہ بالا رکاوٹوں کو دور بھی کر دیا جائے تب بھی ایک موروثی عنصر موجود ہو گا جس کی وجہ سے گاڑیوں کے مالکان انشورنس نہیں کروائیں گے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں قانون کا نفاذ بہت بڑا چیلنج ہے۔ زیادہ تر معاملات میں ٹریفک حادثات کے متاثرین کا تعلق کم آمدن طبقے سے ہوتا ہے جبکہ حادثے کا ذمہ دار عموماَ بہتر اقتصادیات والے طبقے کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ نتیجتاً متاثرہ فرد کیلئے ذمہ دار کے خلاف قانونی کارروائی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی معمہ ہے جو موٹر انشورنس کیلئے تیسرے فریق کی شمولیت کیلئے ضروری ہے۔ اس کا مقصد ڈرائیور کو نہیں بلکہ ٹریفک حادثات کے متاثرین کو محفوظ بنانا ہے۔ آپ اسے اپنے لیے نہیں لیتے۔ بلکہ اس لئے لیتے ہیں کہ آپ کی گاڑی سے کسی اور کو نقصان نہ پہنچے۔

عامر حمید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موٹر انشورنس کے پھیلاؤ کو بڑھانے کے لیے ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ موٹر انشورنس کے فوائد اور قانونی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ انشورنس کے طریقہ کار کو مزید آسان بنانا ہو گا۔ آسان رسائی، ادائیگیوں کے لچکدار پلان اور طے شدہ کوریج میں اضافہ کرنے سے موٹر انشورنس کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لازمی انشورنس کا قانون نافذ کرنے کیلئے حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون ایک اور کلیدی حکمت عملی ہے۔ مالیاتی اداروں اور آٹو موٹیو انڈسٹری کے ساتھ شراکت داری بھی انشورنس کیلئے کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here