وہ مسائل جو پاکستان کی جانب سے زیادہ مقدار میں ’سستا‘ روسی خام تیل درآمد کرنے کی راہ میں حائل ہیں

317

کراچی: پرکشش قیمت کے باوجود کچھ مسائل اور رکاوٹوں کی بنا پر پاکستان کی جانب سے روسی خام تیل خاطر خواہ مقدار میں درآمد کیے جانے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔

برطانوی خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق غیرملکی کرنسی کی کمی، ریفائنریز اور بندرگاہوں کی محدود صلاحیت پاکستان کیلئے روسی خام تیل کو تیل کی کُل درآمدات کا دو تہائی حصہ بنانے کے ہدف کے حصول میں رکاوٹ ہے۔

یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے روسی خام تیل کی یورپی منڈیوں کو رسد پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کے بعد بھارت اور چین نے وسیع پیمانے پر سستا روسی تیل درآمد کیا جبکہ زرمبادلہ کی قلت کا شکار پاکستان حال ہی میں روسی خام تیل کا صارف بنا ہے اور رعایتی قیمت پر ملنے والا خام تیل کا پہلا کارگو جون میں کراچی پہنچا تھا جبکہ دوسرے کارگو کیلئے بات چیت جاری ہے۔

سال 2022ء میں پاکستان کی خام تیل کی درآمدات ایک لاکھ 54 ہزار بیرل یومیہ ریکارڈ کی گئیں تھیں۔ حکومت نے روس سے تقریباََ ایک لاکھ بیرل یومیہ کے حساب سے درآمدات کا ہدف مقرر کیا تاکہ تیل کا درآمدی بل کم ہو اور زرمبادلہ کے بحران سے نمٹا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ بلند ترین سطح کو چھوتی مہنگائی پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔

تاہم روسی تیل کے کم معیار اور زیادہ درآمدی اخراجات کے باعث اس کے فوائد بھی پاکستان میں تیل کے اہم سپلائرز سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے درآمد ہونے والے خام تیل کے تقریباََ برابر ہی ہیں۔

ایف آر آئی ایم کے اعلیٰ سرمایہ کاری افسر شہباز اشرف کے مطابق پاکستان کو روسی خام تیل سے پٹرولیم مصنوعات کی کم پیداوار کو پورا کرنے کے لیے پٹرول اور گیس کی درآمدات میں اضافہ کرنا پڑے گا جس سے زرمبادلہ کا زیادہ اخراج ہو گا اور اس کی بحران زدہ معیشت پر دباؤ پڑے گا۔

اگرچہ اسلام آباد اور ماسکو نے قیمتوں کی تفصیلات اور چھوٹ کی حد کے بارے میں نہیں بتایا لیکن روسی خام تیل کی ادائیگی کے لیے چینی یوآن کی کمی ایک اور رکاوٹ ہے کیونکہ اسے چین کے ساتھ تجارت کے لیے یوآن کی ضرورت ہے جو اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

پاکستان نے پہلے روسی تیل کے کارگو کی ادائیگی چینی یوآن میں کی تھی۔ تاہم انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر عادل ناخودہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے یوآن میں ادائیگی کی بجائے یہ بہتر ہو گا کہ وہ روس کے ساتھ بارٹر ڈیل کرے۔

عادل ناخودہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر پاکستان یوآن میں ادائیگی جاری رکھتا ہے تو یہ دیگر قرض دہندگان کو کیسے ادائیگی کرے گا اور اگر وہ روسی تیل کی ادائیگی کے لیے یوآن کے کم ذخائر کا استعمال کرتا رہا تو چین کے ساتھ تجارت کیسے کرے گا؟

ایک مسئلہ یہ ہے کہ روسی خام تیل کی نقل و حمل کے اخراجات مشرق وسطیٰ کے خام تیل کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہیں، ناصرف اس وجہ سے کہ فاصلہ طویل ہے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ پاکستان کی بندرگاہیں بڑے روسی جہازوں کو سنبھال نہیں سکتیں۔

سرکاری حکام کے مطابق مشرق وسطیٰ سے خام تیل براہ راست پاکستان پہنچتا ہے لیکن روسی خام تیل کو عمان میں لائٹرنگ آپریشن (lightering operation) کرتے ہوئے سُپر ٹینکر سے چھوٹے بحری جہاز پر منتقل کرنا پڑا تاکہ اس کا وزن ہلکا ہو جائے۔

کپلر میں خام تیل کے تجزیہ کار وکٹر کاٹونا کہتے ہیں کہ ترسیل کی اضافی لاگت کے باوجود روسی تیل درآمد کرنا زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ عرب لائٹ یورال کے مقابلے میں 10 سے 11 ڈالر فی بیرل زیادہ مہنگا ہے جبکہ لائٹرنگ آپریشن کی وجہ سے لاگت میں تقریباً 2 سے 3 ڈالر فی بیرل تک کا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی خریدار پھر بھی فائدے میں ہیں۔

تاہم یورال کا معیار بھی ایک رکاوٹ ہے کیونکہ پاکستان کی ریفائنریز یورال سے اتنا پٹرول اور ڈیزل حاصل نہیں کر سکتیں جتنا وہ عرب لائٹ سے سے پیدا کرتی ہیں۔

پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے سربراہ زاہد میر کے مطابق ریفائنری کو ایک لاکھ میٹرک ٹن (7 لاکھ 30 ہزار بیرل) یورال خام تیل کے پہلے کارگو کو مکمل طور پر صاف کرنے میں کم از کم دو ماہ لگیں گے کیونکہ اسے مشرق وسطیٰ کے خام تیل کے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے تاکہ معیار بہتر ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ پروسیسنگ کا بہتر حل یہی ہے کہ یورال کو مشرق وسطیٰ سے درآمد شدہ خام تیل کے ساتھ ملایا جائے اور اس میں بھی یورال 50 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ یورال سے بننے والے بقیہ ایندھن کو ڈیزل اور مٹی کے تیل کے ساتھ ملانا پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی آر ایل کا اپنی ریفائنری کو اعلیٰ معیار کے ایندھن کو پراسیس کرنے کے لیے اپ گریڈ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔

کیپلر کو توقع ہے کہ پاکستان کے لیکویڈیٹی مسائل اور تکنیکی چیلنجز روسی خام تیل کے لیے اس کی طلب کو متاثر کریں گے۔ اسلیے روسی تیل کی ماہانہ درآمدات ایک کارگو سے اوپر نہیں جائیں گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here