’تنخواہ دار طبقہ نے برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کے مقابلے میں تقریباً 200 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا‘

276

اسلام آباد: پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال 2022-23ء کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں 264.3 ارب روپے ادا کیے۔ یہ رقم ملک کے برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کی جانب سے ادا کیے گئے مجموعی انکم ٹیکس سے تقریباً 200 فیصد زیادہ ہے۔

وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2022-23 کے دوران تنخواہ دار افراد نے مجموعی طور پر 264.3 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ تنخواہ دار طبقے کی جانب سے 35 فیصد کی شرح سے ٹیکس کی مد میں ادا کی گئی رقم 75 ارب روپے سے زیادہ اور گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ تھی۔

ٹھیکیداروں، بینک ڈپازٹرز اور درآمد کنندگان کے بعد تنخواہ دار لوگ وِد ہولڈنگ ٹیکس میں چوتھے سب سے بڑے شراکت دار تھے۔ ایف بی آر نے ابھی تک یہ اعدادوشمار باضابطہ طور پر جاری نہیں کیے۔

گزشتہ بجٹ میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں میں اضافہ کیا تھا جو زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ بھی بن گیا۔ تنخواہ دار طبقے پر بھاری ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ تاریخ کی ریکارڈ بلند ترین مہنگائی کے باوجود حکومت نے اس بجٹ میں دو لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ کمانے والے تنخواہ دار لوگوں پر ایک بار پھر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ دریں اثنا، تقریباً 5 ہزار ریٹیلرز کو ان کی رجسٹریشن کی شرائط میں نرمی دے کر چھوڑ دیا گیا۔

گزشتہ مالی سال کے دوران ایف بی آر نے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 2 کھرب روپے سے زائد جمع کیے جو گزشتہ مالی سال میں ایف بی آر کی جانب سے حاصل کیے گئے کل انکم ٹیکس کے 61 فیصد کے برابر تھے۔ تاہم ودہولڈنگ ٹیکس خاص طور پر ریٹرن فائل نہ کرنے والوں سے دگنا شرحوں پر وصولی  ایف بی آر کے لیے ریونیو اکٹھا کرنے کا ایک آسان ذریعہ بن گیا ہے۔

تنخواہ دار طبقے کے الائنس کے مطابق غیر رسمی شعبے کو ترقی کی اجازت دیتے ہوئے موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنا سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو مارنے کے مترادف ہے۔ جمع ہونے والے انکم ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ رقم ٹھیکیداروں، درآمد کنندگان، تنخواہ دار افراد، نان فائلرز کے بجلی کے بلوں، ٹیلی فون اور موبائل فون استعمال کرنے والوں اور ڈیویڈنڈ کی آمدنی سے تھی، جیسا کہ ایف بی آر کی مرتب کردہ تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے۔ دیگر بڑے ریونیو سپنرز جائیدادوں کی خرید و فروخت، برآمدات، غیر ملکی آمدنی کی فیس، بروکریج کمیشن، اور کاروں کی رجسٹریشن پر ٹیکس تھے۔

تاہم اعداد وشمار  کے مطابق برآمد کنندگان اور ریٹیلرز مل کر تنخواہ دار طبقے سے 175 ارب روپے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کی طرف سے ادا کردہ کل انکم ٹیکس 89.5 ارب روپے تھا جو کہ تنخواہ دار افراد کے ادا کردہ انکم ٹیکس سے 175 ارب روپے یا 196 فیصد کم تھا۔

گزشتہ مالی سال میں 27.7 ارب ڈالر کمانے والے ایکسپورٹرز نے ٹیکس کی مد میں 74 ارب روپے کی معمولی رقم ادا کی۔ ٹیکسوں میں ان کا حصہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 17.4 فیصد زیادہ تھا، لیکن یہ روپے کے لحاظ سے ان کی آمدنی میں اضافے سے کم تھا۔ برآمد کنندگان انکم ٹیکس میں اپنی مجموعی رسیدوں کا صرف 1فیصد ادا کرتے ہیں۔ لیکن برآمد کنندگان کے نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی موثر شرح تنخواہ دار طبقے کی زیادہ سے زیادہ شرح 35 فیصد کے تقریباً برابر ہے۔ دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

اسی طرح ریٹیلرزکو فروخت پر 0.5 فیصد ایڈوانس ٹیکس کی شرح سے ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال میں محض 15.6 ارب روپے جمع کیے تھے۔ یہ شاید کسی بھی آمدنی والے گروپ کی طرف سے سب سے کم شراکت تھی۔ معیشت کے کل سائز میں خوردہ فروشوں اور تھوک فروشوں کا حصہ تقریباً 19 فیصد تھا، لیکن کل انکم ٹیکس میں ان کا حصہ محض 0.4 فیصد تھا۔

آئی ایم ایف بھی غلط طریقے سے تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈال رہا ہے جو برآمد کنندگان اور ریٹیلرزکے برعکس پاور کوریڈورز میں آواز نہیں اٹھاتا۔

گزشتہ مالی سال میں ٹھیکیداروں اور خدمات فراہم کرنے والوں سے ٹیکس وصولی 3 فیصد اضافے سے 391 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ واحد سب سے بڑا انکم ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ ہونے کے باوجودایف بی آر کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔

گزشتہ مالی سال میں قرض پر منافع کی مد میں وصولی 106 فیصد اضافے کے ساتھ 320 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ شرح سود اور لوگوں کے پیسے بچانے کے رجحان کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ بینک FBR کی جانب سے ان بچت کھاتوں پر 10فیصد سے 50فیصد انکم ٹیکس کی شرح وصول کرتے ہیں۔

درآمد کنندگان نے مختلف قسم کی درآمدات پر انکم ٹیکس کی مد میں 290 ارب روپے ادا کیے، جو ود ہولڈنگ ٹیکس میں تیسرا سب سے بڑا حصہ دار ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here