سعودی عرب کی پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، آئل ریفائنری پراجیکٹ کے ایم او یو پر دستخط

228

اسلام آباد: برادر ملک سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک بڑی پیشرفت ہوئی ہے، پانچ پاکستانی سرکاری کمپنیاں سعودی عرب کے ساتھ مل کر پاکستان میں 10 ارب ڈالر کے آئل ریفائنری منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ذرائع کے مطابق سعودی آرامکو ابتدائی طور پر اربوں ڈالر کے ریفائنری پراجیکٹ میں پوری ایکویٹی لگانے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی جس کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او)، پاک عرب ریفائنری (پارکو)، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل)، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) اور گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ (جی ایچ پی ایل) 70 فیصد ایکویٹی میں حصہ ڈالیں گی جبکہ آرامکو اس منصوبے میں ابتدائی طور پر 30 فیصد سرمایہ لگائے گی۔

اس تعاون کو حتمی شکل دینے کے لیے 27 جولائی کو ایم او یو پر دستخط ہو چکے ہیں جس سے دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو تقویت ملے گی۔ اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے  پاکستانی حکام اس پر سرگرمی سے کام کر رہے ہیں، پاکستان میں سعودی سفیر بھی گوادر میں مجوزہ ریفائنری کے مقام کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔

اس منصوبے کو ماضی میں پاکستان اور سعودی عرب کی ماضی کی حکومتوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مسائل کا سامنا رہا۔ تاہم موجودہ وفاقی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے کافی تگ و دو کرتی نظر آ رہی ہے۔ 

مجوزہ مشترکہ منصوبہ  کے تحت گوادر میں 4 لاکھ بیرل یومیہ کی گنجائش کے ساتھ آئل ریفائنری قائم کی جائے گی۔ یہ گرین ریفائنری پراجیکٹ ہے جس پر دس سال سے کام ہو رہا تھا، اس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک موجودہ حکومت نے پہنچایا۔ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے اس حوالے سے بتایا کہ گرین فیلڈ ریفائنری پراجیکٹ کی تکمیل سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کم ہوں گی اور زرمبادلہ ذخائر پر بوجھ میں کمی آئے گی۔

حکومت پاکستان پہلے ہی ملک میں نئے منصوبوں کے لیے ریفائنری پالیسی کی منظوری دے چکی ہے جس میں ریفائنریز کے قیام کے لیے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکس میں چھوٹ بھی شامل ہے۔ تاہم اس نے ابھی تک موجودہ ریفائنریز کے لیے ایک ریفائنری پالیسی کی منظوری نہیں دی تاکہ اپ گریڈیشن پلانٹس کے قیام میں آسانی ہو۔ پاکستان میں موجودہ ریفائنریز کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کی توسیع کے لیے نئی ریفائنری پالیسی کے تحت مراعات دی جائیں تو وہ ملک کی ایندھن کی طلب کو پورا کر سکتی ہیں۔

اقتصادی فوائد کے علاوہ یہ شراکت داری سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں تذویراتی اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں ممالک نے اس سے قبل معاشی غیر یقینی صورتحال کے دوران پاکستان کو مالی مدد فراہم کی ہے۔ 

اس منصوبے کا اعلان پہلی بار جنوری 2019 میں سعودی عرب کے وزیر توانائی خالد الفالح کے دورہ پاکستان کے دوران کیا گیا تھا۔ سعودی عرب نے گوادر میں 10 ارب ڈالر کی آئل ریفائنری قائم کرنے کے اپنے ارادے  کا اظہار کیا تھا۔ تاہم اس منصوبے کو مالیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اسکے آغاز میں تاخیر ہوئی۔

فروری 2019 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دورہ پاکستان کے موقع پر گوادر میں آئل ریفائنری قائم کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر سمیت مجموعی طور پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا تاہم اس وقت کی حکومت کے ساتھ مبینہ طور پر کشیدہ تعلقات کی وجہ سے یہ بڑی سرمایہ کاری ممکن نہ ہو سکی اور بعد ازاں سعودی عرب نے 3.2 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی واپسی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ 

اب سعودی عرب کی جانب سے ریفائنری کے قیام سمیت سرمایہ کاری کے نئے منصوبوں پیشکش کے بعد پیٹرولیم ڈویژن نے نئی ریفائنری پالیسی پر کام تیز کر دیا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب کی دلچسپی بحال ہوئی ہے۔ 

حکام کا دعویٰ ہے کہ پارکو، جس کی موجودہ صلاحیت ایک لاکھ  بیرل یومیہ ہے، پاکستان کی سب سے بڑی آئل ریفائنری ہے۔ ملک کی بڑھتی ہوئی ایندھن کی طلب کو پورا کرنے کے لیے 4 لاکھ بیرل یومیہ کی گنجائش والی ریفائنری بہت اہم ہے۔ اس وقت پارکو کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سعودی عرب سے خام تیل کی برآمدات درکار ہیں۔

صنعتی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر موجودہ ریفائنریز اپنی صلاحیت کو بڑھا کر 4 لاکھ بیرل تک لے جائیں اور اسی صلاحیت کے ساتھ ایک اضافی ریفائنری قائم کی جائے تو یہ 2040ء تک ملک کی ایندھن کی طلب کو کافی حد تک پورا کر سکے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here