پاکستان کا خود مختار ویلتھ فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ، مگر قیمتوں کا تعین کیسے ہو گا؟

212

لاہور: پاکستان اپنا خود مختار ویلتھ فنڈ قائم کرنا چاہتا ہے جس کی اندازاََ مالیت 23 ٹریلین روپے ہو گی۔ فنڈ کے قیام کیلئے ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی (ADIA) سے تکنیکی معاونت فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔

زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ اور ملک کو ڈیفالٹ کے حالیہ خطرات کی وجہ سے حکومت نے کچھ اثاثوں کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ ماضی میں حکومت کو بعض خسارے میں چلنے والے ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں (ایس او ایز) کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے مسلسل تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں اثاثے فروخت کیے گئے اور اب وہ حکومت کیلئے ٹیکس آمدن پیدا کر رہے ہیں حالانکہ جب وہ حکومت کے پاس تھے تو نقصان اٹھا رہے تھے۔

بینک الفلاح کے شریک بانی پرویز شاہد کہتے ہیں کہ پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلویز جیسے ادارے اس وقت خسارے میں چل رہے ہیں اور حکومت کیلئے بہتر ہے کہ انہیں دیگر ممالک کو بیچ دے۔ جو کمپنیاں ٹھیک چل رہی ہیں وہ بھی قابل انتظامیہ کے بجائے اجارہ داری کی وجہ سے چل رہی ہیں۔ پرویز شاہد کے خیال میں بین الاقوامی آپریٹرز کو خسارہ زدہ کمپنیوں کی شیئر ہولڈنگ فروخت کرکے مزید زوال سے بچا جا سکے گا اور بہتر انتظامی اور ٹکنیکی خدمات فراہم کرکے حالات کو سدھارا جا سکے گا۔

ویلتھ فنڈ کے قیام کا مقصد انہی خسارہ زدہ اثاثوں کو ایک چھتری تلے اکٹھا کرنا ہے تاکہ فنڈ کے ذریعے ان اثاثوں کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کیا جا سکے۔ 

اَب صورتحال یہ ہے کہ کسی اثاثے کو فروخت کرنے سے قبل مہینوں طویل مشاورتی عمل اور کاغذی کارروائیاں چلتی ہیں جبکہ ویلتھ فنڈ حکومت کو بین الاقوامی معیار اور پالیسیوں کے عین مطابق اثاثوں کا انتظام چلانے اور فروخت کرنے کی اجازت دے گا اور دنیا کے سامنے ملک کا مثبت تشخص اجاگر کرے گا۔

اس فیصلے کے مطابق وزارت خزانہ نے ایک مسودہ قانون کو حتمی شکل دے دی ہے جسے آئندہ دنوں میں اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔ ڈیلوئٹ (Deloitte) کے سابق سینئر پارٹنر اسد علی شاہ جیسے ماہرین کا خیال ہے کہ وزارت خزانہ کو چاہیے کہ وہ مذکورہ کمپنیوں اور اداروں کا بہتر مالیاتی انتظام کرے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ اگر یہ کمپنیاں بہتر طور پر چلائی جائیں تو وہ بیش قیمت ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس وقت یہ ساری کمپنیاں خسارہ زدہ ہیں جن کا مجموعی خسارہ 125 ٹریلین روپے یا جی ڈی پی کا تقریباً 15 فیصد ہے۔ ایسے ملک کی طرف سے خودمختار فنڈ بنانا جو اپنے قرضے اور بیرونی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہو، مذاق ہو گا۔

یہ تمام اقدامات ملک کو درپیش معاشی مشکلات کی وجہ سے کیے جا رہے ہیں اور یہ حال ہی میں پاس ہونے والے بین الحکومتی کمرشل ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2022 کے مطابق ہیں۔ یہ آرڈیننس وفاقی حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کمپنیوں کے حصول کے لیے صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کر سکے جن پر صوبے فوری عمل کرنے کے پابند ہیں۔ آرڈیننس مرکز کو ریاستی اثاثوں کی بیرونی ممالک کو فروخت کیلئے مذاکرات کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ آرڈیننس ملک کی کسی بھی عدالت کو ان اثاثوں کی فروخت کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے سے بھی روکتا ہے۔

چیز سکیورٹیز (Chase Securities) کے ڈائریکٹر ریسرچ یوسف فاروق کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اثاثوں کو فروخت کرے۔ نجکاری کے نتیجے میں کمپنیاں زیادہ موثر ہوتی ہیں اور حکومت کو زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت سرمائے کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کے قابل نہیں اور خسارے میں جانے والے اداروں پر مسلسل سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے جو ملک کے وسائل پر بوجھ ہیں۔

تاحال سات سرکاری اثاثوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں پاکستان خودمختار ویلتھ فنڈ میں منتقل کیا جائے گا۔ نیا قانون پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈیننس، پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس اور ریاستی ملکیتی انٹرپرائزز ایکٹ 2023ء سے اثاثوں کی فروخت کو مستثنیٰ قرار دینے کیلئے منظور کیا جا رہا ہے۔ جن کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، نیشنل بینک، پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ، گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ اور نیلم ہائیڈرو پاور کمپنی شامل ہیں۔

آئی ایم ایف کی حالیہ سٹاف لیول رپورٹ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اپنے کچھ سرکاری اثاثے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سرکاری دو طرفہ قرض دہندگان بشمول غیر ملکی خودمختار ویلتھ فنڈز کو فروخت کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ اس سے حکومت اور حکومتی خزانے کے نقصانات کو کچھ کم کیا جا سکتا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ اچھی خاصی رقم بھی حاصل ہو گی جو ملک میں مستقبل کی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔

اس وقت قیمتوں اور لین دین کی شفافیت کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) جیسی کمپنیوں میں حکومت کی بہت زیادہ سرمایہ کاری موجود ہے۔ تیل و گیس کے شعبے میں متحدہ عرب امارات کی دلچسپی کی بنیاد پر یہ دونوں کمپنیاں اچھی قیمت پر فروخت ہو سکتی ہیں۔ 

تاہم ملک کی سٹاک مارکیٹ میں بک ویلیوز کے مقابلے میں اس وقت مارکیٹ کی قیمتیں کم دیکھی جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تقریباََ ڈیڑھ سال سے ملک کو سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے ایکویٹی مارکیٹ اور ویلیوایشن کو نقصان پہنچا ہے اور جو قیمتیں بتائی جا رہی ہیں وہ مایوس کن ہیں۔ محسوس کیا جا رہا ہے کہ ان قومی اثاثوں کو کم قیمت پر فروخت کرنا نقصان دہ ہو گا کیونکہ یہ اثاثے زیادہ قیمتوں پر فروخت کیے جا سکتے ہیں۔

یوسف فاروق کا مزید کہنا ہے کہ “اس وقت سٹاک مارکیٹ کے ذریعے کمپنیوں کو فروخت کرنا مشکل ہوگا کیونکہ مقامی شرح سود بہت زیادہ ہے اور مارکیٹ کی عمومی قیمتیں بھی بہت کم ہیں۔ لیکویڈیٹی کی کمی اور مارکیٹ ویلیویشن کم ہونے کی وجہ سے یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ حکومت کو قیمتوں کی بہتر دریافت کے لیے سٹاک مارکیٹ کے علاوہ دیگر راستے استعمال کرنے چاہئیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here