لاہور: اسلام آباد ہائی کورٹ نے 19 جولائی کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 4 سی کے تحت سپر ٹیکس کا نفاذ غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ایک مخصوص قانون اب درست نہیں رہا کیونکہ اس میں ایک یا زائد حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
اس فیصلے کی روشنی میں اَب ٹیکس سال 2022 کے لیے سپر ٹیکس کی وصولی کا مطالبہ کرنے والے تمام نوٹسز منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ تاہم ایف بی آر کے پاس نئی یا تازہ کارروائی شروع کرنے کا اختیار برقرار ہے، بشرطیکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوں۔
راجہ محمد اکرم اینڈ کمپنی کے ایک پارٹنر اور درخواست گزاروں میں سے ایک اسد لدھا وضاحت کرتے ہیں، “اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وہ اسے کالعدم نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی اسے مکمل طور پر منسوخ کر رہے ہیں، (بلکہ) وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کی تشریح اس طرح کی جانی چاہیے جس طرح وہ کہہ رہے ہیں۔”
تو اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کی تشریح کی ہے؟
دیگر عدالتوں کیساتھ اتفاق: لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ 10 مخصوص صنعتوں پر خصوصی طور پر 10 فیصد ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بجائے ان صنعتوں کو سپر ٹیکس کے حصے کے طور پر قائم کردہ ٹیکس سلیب کے تحت لایا جائے گا اور ٹیکس کی ذمہ داری کے مطابق اس میں بیان کردہ روایتی شرحوں کو لاگو کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ سندھ ہائی کورٹ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سپر ٹیکس کا ماضی پر اطلاق نہی ہو سکتا۔ بلکہ یہ ٹیکس سال 2022 کے بجائے 2023 پرلگایا جائے گا-
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے موجودہ فیصلے میں سپر ٹیکس کے ضمن میں تین اضافی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی ایک وضاحت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سپر ٹیکس تین اضافی صورتوں میں لاگو نہیں کیا جا سکتا: جہاں کمپنیوں نے اپنا حتمی ٹیکس ادا کر دیا ہے، جہاں صنعت ٹیکس سے مستثنیٰ ہے، اور جہاں پٹرولیم ایکسپلوریشن سیکٹر میں منجمد شقیں لاگو ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ کمپنیوں پر کم سپر ٹیکس (4 فیصد تک) ایک بار ان خلاف ورزیوں کو درست کرنے کے بعد لگایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ کمپنیاں ٹیکس میں طے شدہ دیگر تمام معیارات پر پورا اترتی ہوں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی وضاحت پر ایک نظر
اے ایچ آر اینڈ کو کے مینجنگ پارٹنر عدنان حیدر رندھاوا اور ایک اور درخواست گزار وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ: “فائنل ٹیکس کا اندازہ اس تصور پر لگایا جاتا ہے کہ آپ ایک مخصوص رقم بھیجتے ہیں۔ مثال کے طور پر 10 روپے اور پھر آپ اس رقم یا آپ سے 10 روپے کی کٹوتی کی وجہ کے بارے میں نہیں پوچھتے۔ یہ ٹیکس کی ایک مخصوص کیٹیگری میں آتا ہے، جسے ‘مکمل اور حتمی’ کہا جاتا ہے۔”
اس تصور کی وضاحت کرتے کرتے ہوئے عدنان حیدررندھاوا کہتے ہیں کہ “فائنل ٹیکس ایک الگ کیٹگری میں آتا ہے جس میں ایف بی آر کسی اکاؤنٹ کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی آڈٹ کر سکتا ہے۔ عدالت نے ایف بی آر سے سوال کیا کہ اگر انہوں نے کسی سے مکمل اور حتمی ٹیکس وصول کیا ہے تو وہ ان پر اضافی ٹیکس کیسے لگا سکتے ہیں؟”
اس استفسار کے جواب میں عدالت کو بتایا گیا کہ ایف بی آر نارمل یا کم سے کم ٹیکس کی صورت میں ٹیکس لگا سکتا ہے لیکن وہ حتمی ٹیکس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔ “یہ وعدے کی خلاف ورزی ہے جو آج بھی آئی ٹی او کی دیگر دفعات میں موجود ہے۔”
عدنان حیدر رندھاوا بتاتے ہیں کہ “کچھ ایسی صنعتیں ہیں جنہیں قانون کے ذریعے ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے اور آج بھی مستثنیٰ ہیں۔ اس استثنیٰ کو4 سی کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان دفعات کو منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔” اس نکتے کو مزید واضح کرنے کے لیے عدنان حیدر رندھاوا نے کہتے ہیں کہ ”اگر وہ منسوخ کر دیے جاتے تو معاملہ طے پا جاتا۔ انہیں منسوخ نہیں کیا گیا ہے بلکہ وہ اب بھی آئین میں موجود ہیں۔ ان صنعتوں کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ عام ٹیکس کے نہیں لیکن وہ 4 سی کے تابع ہیں۔”
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ: “یہ قانونی وعدے کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ 4 سی کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہے اور قانون نے ان دفعات کو منسوخ نہیں کیا ہے۔”
ای وائی فورڈ رہوڈز کے پارٹنر وقار ظفر نے کہا کہ بینیولنٹ فنڈ کے ریونیو پر ٹیکس کی چھوٹ رہے گی۔ آمدنی کا تعین کرنے کا معیار جیسا کہ سیکشن 4 سی میں بیان کیا گیا ہے، ان کی ٹیکس سے مستثنیٰ حیثیت میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ اس لیے
جاری کردہ ریکوری نوٹسز کو غیر قانونی اور صریح غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح انہیں منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “اسی دلیل کو بروئے کار لاتے ہوئے، آئی ٹی او(2001) کو دوسرے شیڈول کے تحت ملازمین کی ریٹائرمنٹ فنڈز کو دی گئی چھوٹ برقرار رہے گی۔ اس کے نتیجے میں یہ فنڈز سیکشن 4 سی کے مطابق سپر ٹیکس ادا کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔”
یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ پیٹرولیم سیکٹر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟
اسد لدھا بتاتے ہیں کہ پیٹرولیم کمپنیاں صدر کے ساتھ معاہدے کرتی ہیں، جسے پیٹرولیم رعایتی معاہدے کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدے آپریشن کی شرائط کو بیان کرتے ہیں، کیونکہ زمین اور اس کے وسائل ریاست کی ملکیت ہیں۔ ان معاہدوں کے اندر، انکم ٹیکس سے متعلق منجمد شقیں ہیں جن کا مقصد سرمایہ کاروں کو ترغیب دینا ہے، یہ شقیں یہ بتاتی ہیں کہ انکم ٹیکس پر ایک کیپ ہوگی، جو معاہدے پر دستخط کے وقت منجمد ہو جائے گی۔”
اس نکتے کی عدنان حیدر رندھاوا نے یوں وضاحت کی: “ان معاہدوں کی شرائط یہ بتاتی ہیں کہ ان کے منافع پر ٹیکس 55 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ تاہم سیکشن 4 سی کے نفاذ کے ساتھ کچھ کمپنیوں کے ٹیکس کی شرح 55 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ صدر کے دستخط کردہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔”
کیا کمپنیاں خوش ہو سکتی ہیں؟
اس کے لیے دو پہلوئوں کو دیکھنا ہوگا- وہ کمپنیاں جنہیں ابھی بھی ٹیکس سال 2022 کے لیے ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ سپر ٹیکس کو فنانس ایکٹ 2023 میں شامل کیا گیا ہے۔
آئیے اول الذکر کو پہلے دیکھتے ہیں۔ وقار ظفر کہتے ہیں کہ: “ایف بی آر یہ نقطہ نظر اپنا سکتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ صرف اسلام آباد میں رجسٹرڈ دفاتر والے کلائنٹس کی حد تک ہے جو رٹ پٹیشن کے فریق ہیں۔ فیصلہ صرف ان کے لیے ہے جنہوں نے کیس لڑا، اس کا اطلاق ہر کسی پر نہیں۔”
اسد لدھا کہتے ہیں کہ اسی طرح “اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ٹیکس ادا کرنے کے لیے کہا جائے تو آپ کہہ سکتے ہیں چاہے آپ کہیں بھی ہوں، کہ سپر ٹیکس کی تشریح اسلام آباد ہائی کورٹ نے کی ہے اور یہ وہی ہے جو قانون ہے جب تک کہ سپریم کورٹ فیصلے کو معطل نہیں کرتی یا اس کی مختلف تشریح نہیں کرتی۔”
اسد لدھا آگے چل کر کہتے ہیں کہ فنانس ایکٹ 2023 میں سپر ٹیکس بھی وہی ہے جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں بیان کیا گیا ہے۔ فیصلہ ہر جگہ لاگو ہوتا ہے، اور کوئی بھی اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ای وائی فورڈ رہوڈز کے ایک اور پارٹنر عامر یونس کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ حکومت کے لیے اس کے سپر ٹیکس کے اطلاق میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے جب تک کہ سپریم کورٹ اس کی اسی طرح تشریح نہیں کرتی۔
آگے کیا ہو گا؟
ایف بی آر اس فیصلے کی معطلی کے لیے فوری طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا خواہاں ہے۔ ان کی یہ عجلت قابل فہم ہے۔ وہ ایسے کہ اس فیصلے کے ٹیکس سال 2023 اور اس کے بعد کے ٹیکس فائلنگ پر دور رس اوراہم اثرات مرتب ہوں گے۔
اسد لدھا کا کہنا ہے کہ “جب ایف بی آر اپیل دائر کرتا ہے اوراس کی سماعت ہوتی ہے تو وہ عام طور پر اس فیصلے کو معطل کروانے کی کوشش کریں گے جب تک کہ درخواست کی حتمی سماعت اور فیصلہ نہ ہو جائے جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ وہ چاہیں گے کہ فیصلہ عبوری طور پرمعطل کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو پھر قانون وہی ہو جائے گا جو فنانس ایکٹ میں ترمیم شدہ سپر ٹیکس میں تھا۔‘‘