اسلام آباد: وفاقی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تعطل کا شکار بیل آؤٹ پیکج بحال کرنے میں ناکامی کی وجہ سے گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں صرف 47 فیصد بیرونی قرضے حاصل کر سکی۔
وزارت اقتصادی امور کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے مالی سال 2022-23 کے دوران 22.6 ارب ڈالر تخمینے کے مقابلے میں 10.8 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کیے۔
اعداد و شمار کے مطابق سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جولائی 2022 میں 8.395 ارب ڈالر سے کم ہو کر جون 2023 میں 4.46 ارب ڈالر رہ گئے۔
زرمبادلہ ذخائر جنوری 2023 میں بیرونی قرضوں کی زیادہ ادائیگیوں کی وجہ سے 3.11 ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر آگئے۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 204 روپے سے 290 روپے تک گر گیا۔
مقامی کرنسی کی قدر میں کمی سے معیشت میں افراط زر اور بے یقینی کا سیلاب لایا۔
موجودہ حکومت نے کثیر الجہتی (ملٹی لیٹرل) قرض دہندگان سے 5.2 ارب ڈالر کے قرضے بھی حاصل کیے جو کہ گزشتہ مالی سال کے تخمینے سے 31 فیصد کم ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) سب سے بڑا قرض دہندہ رہا اور اس نے گزشتہ مالی سال کے دوران 2.3 ارب ڈالر کی توسیع کی۔
ورلڈ بینک نے 2.6 ارب ڈالر کے سالانہ تخمینے کے مقابلے میں 2.1 ارب ڈالر کے قرضے دیئے۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے 1.2 ارب ڈالر کے تخمینے کے مقابلے میں تیل کی مالی اعانت کے لیے 16.1 کروڑ ڈالر دیے۔
7.5 ارب ڈالر کے سالانہ تخمینہ کے مقابلے میں پاکستان کو گزشتہ مالی سال میں 2.2 ارب ڈالر کے غیر ملکی تجارتی قرضے ملے، جو کہ بجٹ کی رقم سے 71 فیصد کم ہے۔
جون میں پاکستان کو چین سے 1.3 ارب ڈالر کا غیر ملکی تجارتی قرضہ ملا۔ خراب کریڈٹ ریٹنگ اور رکے ہوئے پروگرام کو بحال کرنے میں ناکامی کی وجہ سے غیر ملکی کمرشل بینکوں کی جانب سے کم رقم کی ادائیگی ہوئی۔
2 ارب ڈالر کے خودمختار بانڈ پر مبنی قرض لینے کی منصوبہ بندی ناقص کریڈٹ ریٹنگز اور متوقع زیادہ سود کے اخراجات کی وجہ سے عمل میں نہیں آئی۔
حکومت کو آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر ملنے کی بھی توقع تھی لیکن رواں مالی سال کے اختتام تک صرف 1.2 ارب ڈالر ملے۔
مزید برآں حکومت کو نیا پاکستان سرٹیفکیٹس کے تحت 1.63 ارب ڈالر کے سالانہ تخمینہ کے مقابلے میں صرف 78.9 کروڑ ڈالر ملے۔
حکومت نے مزید قرضے حاصل کرنے کے لیے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر شرح سود میں اضافہ کیا تھا۔ دو طرفہ قرض دہندگان نے 78.9 کروڑ ڈالر کے تخمینے کے مقابلے میں 1.5 ارب ڈالر تقسیم کئے۔ زیادہ ادائیگیاں سعودی عرب کی تیل کی سہولت کی وجہ سے ہوئیں۔
پاکستان کو سعودی عرب سے 80 کروڑ ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر کے برابر تیل بھی ملا۔
ادائیگیوں میں کمی بنیادی طور پر اس حقیقت کی وجہ سے تھی کہ بڑے بین الاقوامی قرض دہندگان حکومت کی جانب سے 6.5 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کو بروقت بحال کرنے میں ناکامی کی وجہ سے دور رہے۔