اسلام آباد: پاکستان کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ آم کی برآمد گزشتہ تقریباََ ہفتوں سے رکی ہوئی ہے جس کی وجہ تمام ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ (HWT) پلانٹس کی بندش بتائی گئی ہے۔
پلانٹس کے مالکان اور برآمد کنندگان کا دعویٰ ہے کہ یہ معطلی غیر ضروری اور ہمیشہ بدلتے ہوئے ایس او پیز کا نتیجہ ہے جو محکمہ پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔ ڈی پی پی وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی ایک ڈویژن ہے۔
تقریباً ایک درجن پلانٹ مالکان اور برآمد کنندگان نے تصدیق کی ہے کہ رواں سیزن کے دوران پنجاب سے ایک کلو آم بھی برآمد نہیں کیے گئے۔وہ ڈی پی پی کے غیر معقول اور ہر پل بدلتے ایس او پیز کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ موجودہ پلانٹس میں آموں کی ٹریٹمنٹ ناممکن ہے۔
اُدھر ڈی پی پی کے ڈائریکٹر جنرل عابد اللہ دتہ نے کسی بھی ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی بندش کی تردید کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایس او پیز کے مطابق صرف کنسائنمنٹس کو برآمدات کے لیے ضروری فائٹو (Phyto) سرٹیفکیٹ ملے گا۔ یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب برآمد کنندگان نے تجویز کردہ پروٹوکول پر عمل کیے بغیر سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کیا۔
تنازع اس وقت بڑھ گیا جب ملتان میں واقع ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے مالک نے ڈی پی پی پر موجودہ پلانٹس کا دوسری بار آڈٹ کرنے کے بعد بھی آم کی برآمد میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا۔ اس صورت حال نے چونسا آم کی قیمتی قسم کی برآمد کو خطرے میں ڈال دیا ہے جس کی ایران اور دبئی میں 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی مارکیٹ موجود ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پلانٹس میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران سندھ کے آم ٹریٹ کیے جا رہے ہیں، خاص طور پر معروف سندھڑی قسم کے آموں کی بغیر کسی ایس او پی سے متعلقہ رکاوٹوں کے ٹریٹمنٹ کی جارہی ہے۔ تاہم ٹریٹمنٹ کے مسئلے کی وجہ سے پنجاب سے چونسہ قسم کو برآمدی پابندیوں کا سامنا ہے۔ اس معطلی سے آم کی خراب ہونے والی نوعیت کو دیکھتے ہوئے متاثرہ علاقے کے برآمد کنندگان، تاجروں اور کاشتکاروں کو کافی نقصان ہو رہا ہے۔
پلانٹ مالکان نے ڈیٹا لاگرز کے ذریعے نصب سینٹرل کمانڈ سسٹم کے علاوہ پورٹ ایبل سینسرز کے استعمال پر ڈی پی پی کے اصرار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ سینٹرل کمانڈ سسٹم ٹینک کے درجہ حرارت کی تصدیق کے لیے کافی ہے اور یہ کہ پورٹ ایبل سینسرز غیر ضروری ہیں، نقصان کا باعث ہیں اور ان کو تبدیل کرنا مہنگا ہے۔ پلانٹ کے مالک کے مطابق صرف 2.30 منٹ کے جائزے کے دوران 30 سینسرز خراب ہو گئے کیونکہ ٹریٹمنٹ پراسیس کے دوران کنویئرز اور فلیپر چینز سے سینسر کو نقصان پہنچا تھا۔
برآمد کنندگان محسوس کرتے ہیں کہ اس پریشانی کی وجہ سے کروڑوں روپے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، تجارت میں رکاوٹ اور ملک کی ترسیلات پر منفی اثر پڑ رہا ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کو لکھے گئے ایک خط میں ایک برآمد کنندہ نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ آپریٹرز کو تجارت کو آسان بنانے کے لیے دیے گئے ایس او پیز پر عمل کرنے کی اجازت دیں۔
سخت نگرانی کی وجہ سے ملتان میں تین پلانٹس کو بھی بند کر دیا گیا ہے جس سے بحران مزید بڑھ گیا ہے۔ مزید برآں چونسا سفید آم ایران کو برآمد نہ کیا گیا تو اس کی قیمتی فصل کو قابل ذکر خطرے کا سامنا ہے جس سے کسانوں کو ممکنہ طور پر شدید مالی نقصان ہو سکتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وزارت کے اعلیٰ افسران اور پلانٹس کے مالکان کے درمیان خفیہ ڈیل سے بھی یہ ساری گڑبڑ پیدا ہوئی ہے۔
برآمد کنندگان نے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ پلانٹس سے پورٹ ایبل سینسرز کو ہٹا دیں جیسا کہ ڈی پی پی کے ایس او پیز میں اجازت دی گئی ہے تاکہ آم کی برآمدات کو بحال کیا جا سکے اور اس میں شامل تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ چونکہ ملک معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہے، اس لیے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنا ایک اہم ریونیو سٹریم کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔