مالیاتی شمولیت: ’بینک اکائونٹ نہ رکھنے والی دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی میں 9 فیصد پاکستانی بھی شامل‘

281

لاہور: ایک لمحے کیلئے بینک اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈ، قرض یا کسی دوسری مالیاتی خدمات تک رسائی کے بغیر زندگی کا تصور کیجئے۔ ایسے حالات میں بچت، بل کی ادائیگی، یا کسی ہنگامی ضرورت سے نمٹنے جیسے بنیادی کاموں کو انجام دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ دنیا کے تقریباً ایک ارب 40 کروڑ افراد کیلئے حقیقت ہے جو مالیاتی اداروں کے ساتھ رسمی روابط نا ہونے کی وجہ سے ’’غیر بینک شدہ‘‘ تصور کیے جاتے ہیں، یعنی ان کے بینک اکائونٹ نہیں ہیں۔ اس حوالے سے اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بینک اکائونٹ تک رسائی نہ رکھنے والے تقریباََ ڈیڑھ ارب افراد میں سے 9 فیصد پاکستانی ہیں۔

اگر بعض ابھرتی ہوئی معیشتوں جیسا کہ بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت اور کینیا کے ساتھ موازنہ کریں جہاں مالیاتی شمولیت 50 فیصد سے زیادہ ہے تو پاکستان کی پوزیشن کافی نیچے ہے اور یہاں مالیاتی شمولیت کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔

گلوبل فائنڈیکس ڈیٹا بیس 2021ء کے مطابق پاکستان میں لوگوں کے بینک اکاؤنٹس نہ کھلوانے کی بنیادی وجوہات میں دستاویزی معیشت کا نہ ہونا، لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی، مذہبی عوامل، فاصلے کے اعتبار سے بینک برانچوں کی دوری اور کم آمدن شامل ہیں۔

قومی شناختی کارڈ، موبائل فون تک رسائی اور حساب کتاب کی بنیادی مہارتوں میں کمی بھی وہ اہم رکاوٹیں ہیں جن کو عام طور پر کم مالی شمولیت کی وجوہات کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس بات کا اطلاق مرد و زن دونوں پر ہوتا ہے۔ مالیاتی خواندگی اور موبائل سِم کی ملکیت میں سب سے زیادہ تفاوت موجود ہے۔

عام طور پر اس فہرست میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بینکوں کی برانچوں سے دور رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والے ہو سکتے ہیں۔ دیہی پاکستان میں مالیاتی شمولیت 15 فیصد ہے اور جون 2022 تک انفرادی صارفین کے کل ڈپازٹس بیلنس میں ان کی ویلیو کا حصہ 16 فیصد ہے۔

پچھلے تین سالوں میں کچھ بینکوں نے خواتین کو مرکوز کرکے تجاویز متعارف کرائی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اَب اِن اداروں میں 20 سے 25 فیصد کسٹمرز خواتین ہیں جن کے فعال اکاؤنٹس کا تناسب 60 سے 70 فیصد کے درمیان ہے۔

کچھ بینک مالیاتی خدمات تک رسائی بڑھانے کیلئے فزیکل کی بجائے ڈیجیٹل طریقوں پر مبنی حل پیش کر رہے ہیں اور وہ دیہی علاقوں میں بینک اکائونٹس کی تعداد میں 25 سے 35 فیصد تک اضافہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

گزشتہ تقریباََ پانچ سالوں کے دوران کھاتہ داروں کی تعداد میں 49 فیصد اضافہ ہوا ہے، یعنی 2017ء میں 4 کروڑ افراد کے بینک اکائونٹ تھے جو جون 2022 تک 6 کروڑ تک پہنچ گئے۔ ان میں سے 80 لاکھ ایسے اکاؤنٹس ہیں جن کا بیلنس 5 ہزار روپے سے کم ہے۔ تاہم 2017 میں 4 فیصد یعنی ایک کروڑ 70 لاکھ ایسے اکاؤنٹس تھے جن میں 5 ہزار روپے سے کم رقم موجود تھی۔

کچھ ایسے ہی رجحانات بزنس اکاؤنٹس میں دیکھے گئے جہاں کم رقم والے اکاؤنٹس کل تعداد کا 19 فیصد ہیں جو 2017 میں 8 فیصد تھے۔

ملک میں زیرگردش روپوں کی مالیت اس وقت 7.69 ٹریلین روپے ہے جو 2017ء میں 3.93 ٹریلین روپے سے 96 فیصد زیادہ ہے اور یہ بینکوں میں رکھے گئے کل ڈپازٹس کا تقریباً ایک تہائی ہے۔

سٹیٹ بینک نے پچھلی دو دہائیوں میں جامع اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں چند قابل ذکر درج ذیل ہیں:

1۔ مائیکرو فنانس بینکوں، ڈیجیٹل بینکوں اور الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز (EMIs) کے لیے علیحدہ لائسنسنگ سسٹم کے ذریعے مالیاتی اداروں کے تنوع کو فروغ دینا۔

2۔ موبائل والٹس کے ذریعے اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت۔

3۔ آن لائن کریڈٹ انفارمیشن بیورو (e-CIB) کی توسیع اور جدت کاری۔

4۔ انٹر بینک کارڈ ادائیگیوں کے پلیٹ فارم۔

5۔ برانچ لیس بینکنگ (بشمول آسان موبائل اکاؤنٹ) کے ساتھ موبائل والٹس اور یو ایس ایس ڈی۔

6۔ اکاؤنٹ سکیمیں جیسا کہ آسان اکاؤنٹ، آسان ڈیجیٹل ریمی ٹینس اکاؤنٹ، فری لانسر ڈیجیٹل اکاؤنٹ وغیرہ۔

7۔ راست فوری ادائیگی کا نظام۔

8۔ تاجروں کی ڈیجیٹل آن بورڈنگ

9۔ ملک گیر مالیاتی خواندگی پروگرام

10۔ چائلڈ اینڈ یوتھ فنانشل لٹریسی پروگرام

پاکستان میں برانچ لیس بینکنگ، مالیاتی شمولیت اور ریموٹ آن بورڈنگ کے آپشن کے بنیادی مقصد کے ساتھ 2008 میں متعارف کرائی گئی، آج 9 کروڑ 70 لاکھ والٹس کے ساتھ 16 برانچ لیس بینکنگ ادارے موجود ہیں جن کا مجموعی بیلنس 88 ارب روپے ہے۔

پچھلے 5 سالوں میں فی والٹ بیلنس آہستہ آہستہ 565 روپے سے بڑھ کر 900 روپے ہو گیا تاہم اسی مدت میں فعال اکاؤنٹس کا تناسب 52 فیصد سے کم ہو کر 44 فیصد ہو گیا۔

برانچ لیس بینکنگ کی تجویز نے ڈیجیٹل بینکنگ کے دو اہم ایریاز کو بطور خاص مرکوز کیا۔ پہلا محدود ’’اپنے کلائنٹ کو جانیں‘‘ (KYC) کے ساتھ کسٹمر کا حصول اور دوسرا موبائل کے ذریعے فنڈز کی منتقلی ہے۔

برانچ لیس بینکنگ کے 16 میں سے تقریباً ایک تہائی پلیئرز اس میدان میں زیادہ سرگرم ہیں۔ ان میں سے کچھ نے اپنے پلیٹ فارمز کو ری برانڈ کیا ہے جس کا مقصد ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کو ڈیجیٹل تجربہ فراہم کرنا ہے جس کا مقصد ان صارفین کو برانچ لیس سے مین سٹریم بینکنگ میں منتقل کرنا ہے۔

صدر اور سی ای او ایچ بی ایل محمد اورنگزیب کا ماننا ہے کہ ہر کسی کو اس کے پس منظر سے قطع نظر مالیاتی خدمات تک رسائی ہونی چاہیے۔ اسی لیے ڈیجیٹل بینکنگ میں سرمایہ کاری ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کے لیے بینکنگ میں آسانی ہو۔

رپورٹ میں اس فرق کو کم کرنے کے لیے کچھ ممکنہ حل بھی تجویز کیے گئے ہیں جیسا کہ حکومت اور ریگولیٹرز کے اقدامات، مالیاتی خدمات تک رسائی کو وسیع کرنا اور مالیاتی خواندگی شامل ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here