لاہور: پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) میں مئی 2023ء میں سال بہ سال 14.4 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ مالی سال 23-2022 کے 11 مہینوں کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں اس شعبے میں اَب تک منفی شرح نمو ریکارڈ کی گئی ہے، تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا حتیٰ کہ کورونا وبا کے بدترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔
مالی سال 23-2022 کے پہلے 11 ماہ (جولائی تا مئی) کے لیے مجموعی بنیادوں پر لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی شرح نمو 9.9 فیصد پر آ گئی۔ کووڈ کے عروج کے دنوں کے استثنیٰ کے ساتھ یہ اَب تک کی سب سے کم شرح ہے۔
ادارہ برائے شماریات کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق 123 آئٹمز میں سے تقریباً 70 فیصد نے مالی سال کے 11 ماہ کیلئے سالانہ منفی نمو ظاہر کی۔ کچھ سیکٹر میں کئی مصنوعات کی پیداوار منفی رہی جبکہ بہت سے مکمل سیکٹرز میں ہی منفی نمو دیکھی گئی۔ صرف وہ شعبے جو اَب بھی مثبت ہیں، وہ ہیں جو برآمدی مصنوعات بناتے ہیں یعنی ملبوسات (ریڈی میڈ ملبوسات)، فٹ بال، فرنیچر اور چمڑا وغیرہ۔
سال کے دوسرے نصف کے بیشتر حصے میں ملکی برآمدات کم رہیں اور اسی رجحان نے مجموعی طور پر لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی نمو میں بھی ظاہر ہونا شروع کر دیا۔ جون کیلئے نمو مزید کم ہو گی کیونکہ فرنیچر کے شعبے کی نمو ایک ہندسے پر آ گئی ہے۔ فٹ بال اور ریڈی میڈ گارمنٹس نے بھی برآمدات میں سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔
لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی موجودہ منفی شرح نمو دوہرے ہندسوں کو عبور کرتی ہے یا نہیں یہ ایک ماہ میں معلوم ہو جائے گا لیکن اس کا مطلب یقینی طور پر جی ڈی پی کے تخمینے کے لیے استعمال ہونے والے منفی 7.98 فیصد کے عارضی نمبروں میں ایک بڑی نظر ثانی ہو گی۔ یہ یقینی طور پر مالی سال 2023 کے لیے نظرثانی شدہ جی ڈی پی کی نمو کو منفی ایریا میں ڈالنے والا ہے۔
صنعتی سرگرمیاں اب بھی سیلاب، درآمدی پابندیوں، قوت خرید میں کمی اور مہنگے قرضوں جیسے عوامل کی وجہ سے متاثر ہیں۔ پاکستان کے بارے میں آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ ایل ایس ایم کے مستقبل کے حوالے سے ملی جلی تھی کیونکہ اس میں ایک طرف درآمدات سے پابندیاں اٹھانے کا کہا گیا ہے تو دوسری طرف مالیاتی پالیسی کو مزید سخت کرنے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ افراط زر عروج پر پہنچ گیا ہے لیکن لارج سکیل مینوفیکچرنگ کو موجودہ بحران سے نکلنے میں وقت لگے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
صنعتوں کے لیے توانائی کی قیمتوں پر ایک بار پھر نظرثانی کی جائے گی۔ شائد سبسڈی بھی ختم ہو جائے ایسے میں پیداواری صلاحیت واپس حاصل کرنا کچھ مشکل ہو جائے گا۔