لاہور: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے (ایس بی اے) کی منظوری دی ہے تاکہ ملک اپنی تباہ حال معیشت کو سہارا دے سکے جو گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب، مالیاتی اور بیرونی خسارے، گرتے ہوئے زرمبالہ ذخائر اور مہنگائی کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی۔ آئی ایم ایف کی امداد سے درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے کچھ مدد ملے گی مگر اس امداد کی ایک قیمت بھی ادا کرنا ہو گی۔
آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی وسائل کے لحاظ سے کچھ اقدامات کرے۔ پاکستان کو بجلی کی لاگت اور اس شعبے کو دی جانے والی سبسڈی کے حوالے سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنے کو کہا گیا ہے۔ ریاست کی ملکیت سرکاری اداروں (SOE) میں گورننس کو بہتر بنانے کا کہا گیا ہے تاکہ وسائل پر بوجھ کم کیا جا سکے اور ملک موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بہتر اقدامات کر سکے۔
یہ زیادہ تر وہ شعبے ہیں جہاں حکومت کا اثرورسوخ اور کنٹرول ہے اور وہ ایسی پالیسیاں اور رہنما اصول تیار کرنے پر غور کر سکتی ہے جو اسے ان اہداف کو پورا کرنے کے قابل بنائیں گے۔
آئی ایم ایف نے ایک سخت مانیٹری پالیسی لاگو کرنے کیلئے بھی کہا ہے جو مہنگائی کا مقابلہ کرنے اور عوام کی بہتری کے لیے کام کرے گی۔ مانیٹری پالیسی سخت کرنے کے لیے ڈیٹا پر مبنی اپروچ اپنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس سے مہنگائی کا کافی حد تک پتہ چل سکے گا۔ اس کے علاوہ حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ مارکیٹ کے مطابق شرح مبادلہ کو برقرار رکھے جو کہ لگنے والے کسی بھی جھٹکے کو جذب کرے اور ملک میں زرمبادلہ کی کمی کو محدود کرے۔ یہ ایک ایسا ایریا ہے جہاں حکومت کو کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جب سے سٹیٹ بینک خود مختاری آزاد بل 2021 پارلیمنٹ سے منظور ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کو پالیسی اور ادارہ جاتی خود مختاری حاصل ہے اور یہ کہ مانیٹری اور ایکسچینج ریٹ پالیسیاں صرف بینک کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ بینک کرنسی کے ذخائر کا انتظام کرتے ہوئے اس اختیار کا استعمال کرسکتا ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ بینک کی فیصلہ سازی وزارت خزانہ اور وفاقی حکومت کے کسی اثر و رسوخ سے آزاد ہے۔ بینک کا مقصد حکومت کے مقرر کردہ ہدف کے مطابق افراط زر کو برقرار رکھنا ہے۔ اس بینک کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ تاہم، ان کا فیصلہ سازی کا عمل حکومت کے براہ راست اثر و رسوخ سے آزاد ہے۔
سٹیٹ بینک کی خود مختار حیثیت کو حال ہی میں سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے کیونکہ 26 جون 2023 کو مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کا ہنگامی اجلاس ہوا اور شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس سے 22 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ ایم پی سی کا شیڈول اجلاس 12 جون 2023 کو ہوا جہاں شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی لیکن بعد میں ایک ہنگامی میٹنگ ہوئی جہاں تبدیلی کا اعلان کیا گیا۔ اس صورحال بارے زیرگردش افواہیں یہ تھیں کہ پالیسی کی شرح کو حکومت کے اثر و رسوخ سے تبدیل کیا گیا تھا تاکہ مہنگائی کے خلاف اقدام کے طور پر آئی ایم ایف کو مطمئن کیا جاسکے۔ ایم پی سی کی پریس ریلیز میں دی گئی وجہ یہ بتائی گئی کہ بجٹ میں ٹیکس لگائے جانے سے مہنگائی میں اضافہ متوقع تھا اور یہ مہنگائی کو محدود کرنے کا اقدام ہے۔ آئی ایم ایف کی سٹاف رپورٹ کی پریس ریلیز میں ایس بی پی نے جولائی اور مالی سال کے آخر میں ہونے والی میٹنگز اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ آئندہ پالیسی ریٹ میں مزید اضافے کے لیے تیار ہوں گے۔ یہ عہد حقیقی پالیسی کی شرح کو مثبت بنانے کے طریقے کے طور پر کیا جا رہا ہے جو مئی 2023 میں17 فیصد کے ارد گرد منڈلا رہا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سٹیٹ بینک اپنے مشن پر عمل پیرا ہے اور حکومت کی جانب سے مداخلت کے الزامات غلط ہیں۔ چیز سکیورٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ یوسف فاروق کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومتیں تقریباً 70 سے 80 کھرب روپے قرض لے رہی ہیں، اور بینک نجی شعبے پر حکومتوں کو قرض دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یوسف فاروق نے مزید کہا کہ “سٹیٹ بینک معیشت میں موجود خلا کو پُر کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ آپریشنز کے ذریعے نقد رقم فراہم کر رہا ہے جس کی وجہ سے شرح سود زیادہ ہونے کے باوجود مالیاتی پالیسی ڈھیلی ہوئی ہے۔” ایسی صورتحال میں ظاہر ہے مرکزی بینک پالیسی ریٹ کو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ انٹرنیشنل گروتھ سینٹر پاکستان کے کنٹری اکانومسٹ نمیر لیاقت کا خیال ہے کہ اس وقت حکومت اور سٹیٹ بینک مہنگائی سے نمٹنے کے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں اور مرکزی بینک کی طرف سے حالیہ عزم اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں، میں یہ کہوں گا کہ حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک پراپنی پالیسیاں مسلط کرنا کم ہے لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے افراط زر کو کم کرنے اور بیرونی کھاتوں کے توازن کو بحال کرنے کے لیے شرح سود میں اضافے پر زور دیا جا رہا ہے۔
ایک اور تشویش جو معیشت کو متاثر کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ پالیسی ریٹ پہلے ہی 22 فیصد ہے جو کہ اب تک کی بلند ترین شرح ہے اور چونکہ افراط زر برقرار ہے، اس بات کے امکانات ہیں کہ جولائی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی میں پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔ فی الحال یہ واضح ہے کہ صنعت کاروں کی جانب سے ہوشربا قیمتوں کو مسترد کرنے کے ساتھ معیشت پالیسی ریٹ کو توڑ رہی ہے۔ ایس بی پی کے اس وعدے کے ساتھ کہ مزید اضافے کو مدنظر رکھا جائے گا، یہ معیشت کے لیے مزید جھٹکا ثابت ہو سکتا ہے۔ سرمایہ کار پریشان ہیں کہ شرحیں پہلے ہی زیادہ ہیں اور مزید اضافے سے لوگ بینک ڈپازٹس کی طرف رجوع کریں گے کیونکہ وہ بہت بہتر منافع فراہم کر رہے ہیں۔ یوسف فاروق اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ صورتحال ان کاروباروں کے لیے موافق نہیں جو ترقی اور سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں لیکن اس وقت سٹیٹ بینک کو مہنگائی کے بڑے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ ایک اور طریقہ جس سے حکومت کو ان مطالبات کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے وہ ہے سخت مالیاتی پالیسی اور ٹیکس کا بہتر انتظام۔
ٹاپ لائن سکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل کا خیال ہے کہ “سود کی شرحیں زیادہ ہیں لیکن وہ مختصر مدت کے لیے یہی رہیں گی”۔ مہنگائی کے حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ افراط زر کی شرح میں کمی کا رجحان ہے اور آنے والے چند مہینوں میں مہنگائی میں مزید کمی متوقع ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو دیکھیں تو وہاں ٹریڈ مثبت اشاریے ظاہر کررہی ہے اور جون 2023 میں ہونے والی شرح میں اضافے کو مارکیٹ نے شامل کیا ہے۔ مارکیٹ میں حالیہ بہتری اس امید پر مبنی ہے کہ مہنگائی پر قابو پالیا جائے گا اور اگلے 6 سے 12 ماہ میں اس میں کمی متوقع ہے۔
تحریر: زین نعیم