آئی ایم ایف: اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کی شرح مبادلہ برابر کرنے کی شرط

304

لاہور: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حال میں پاکستان کیلئے منظور کردہ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ (ایس بی اے) میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ریٹ کو برابر کرنے کی شرط رکھ دی۔

پاکستان میں ہر حکومت روپے کی قدر کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے تاہم پھر بھی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق پچھلے ایک سال کے دوران زیادہ بڑھ چکا ہے جب پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات نظر آنے لگے تھے۔

دونوں شرحوں کے درمیان اوسط پریمیم کسی بھی لگاتار پانچ کاروباری دنوں کے دوران 1.25 فیصد سے زیادہ نہ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ اوپن مارکیٹ ریٹ فی ڈالر 290 روپے کے لگ بھگ ہے اور اس کا انٹربینک مارکیٹ سے فرق تقریباً 4 روپے کے لگ بھگ ہے۔

اے کے ڈی سیکیورٹیز کے چیف آپریٹنگ آفیسر نوید وکیل کے مطابق ’’آئی ایم ایف اب پاکستان میں شرح مبادلہ کے طریق کار اور اس میں مداخلت کے بارے میں بالکل عدمِ تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‘‘

اوپن مارکیٹ ریٹ کا تعین رسد اور طلب کے ذریعے کیا جاتا ہے جبکہ انٹربینک ریٹ ایک دوسرے سے کرنسیوں کی خریدوفروخت کرنے والے بینکوں کے ذریعے سامنے آتا ہے۔

انٹربینک ریٹ عام طور پر صرف سب سے بڑے اور سب سے زیادہ قابل اعتبار مالیاتی اداروں کے لیے قابل رسائی ہے۔ اس کے برعکس اوپن مارکیٹ ریٹ وہ شرح ہے جو گاہک کو عموماََ مقامی کرنسی ایکسچینج یا دیگر ریٹیل فارن ایکسچینج فراہم کنندگان سے کرنسی کے تبادلے پر ملتا ہے۔ یہ دونوں ریٹس ماضی قریب میں مختلف رہے ہیں۔

اسماعیل اقبال سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف کے مطابق ’’یہ کوئی نئی بات نہیں جو سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے بعد اچانک واقع ہوئی ہو۔ ایسا جون سے ہو رہا ہے۔ اُس وقت بھی یہ افواہیں سرگرم تھیں کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ دونوں شرحوں کے درمیان فرق 2 فیصد ہو لیکن اَب اس نے فرق کو صرف 1.25 فیصد کر دیا ہے۔ یہ اُن وجوہات میں سے ایک ہو سکتی ہے جو روپے کی حالیہ گراوٹ کی وضاحت کر سکتی ہے جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ اور انٹر مارکیٹ ریٹ بڑی حد تک تبدیل ہو رہے ہیں۔‘‘

تاہم نوید وکیل کا کہنا ہے کہ ماضی میں مداخلت کی وجہ سے بحران مزید بڑھا اور ملک کی زرمبادلہ ذخائر کی حالت پتلی ہو گئی۔ آئی ایم ایف شرح مبادلہ کی قطعی سطح کا تعین نہیں کر سکتا لیکن پالیسی گائیڈ لائنز اور اقدامات متعارف کرانے کا مقصد زرمبادلہ مارکیٹ میں مستقل استحکام کو یقینی بنانا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا مقصد ایک نظر آنے والی برابری حاصل کرنا ہے جو زرمبادلہ کی مجموعی پوزیشن کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر کے رجحان کیلئے بھی ضروری ہے۔

لیکن آئی ایم ایف اِن تبدیلیوں کو نافذ کرنے میں کتنا سنجیدہ ہے؟

فہد رؤف کہتے ہیں کہ ’’سٹرکچرل بینچ مارکس یا شرائط محض تجاویز نہیں ہیں۔ یہ وہ معیارات ہیں جن پر عمل کرنے کا آئی ایم ایف آپ کو حکم دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ مخصوص مدت کیلئے ہیں جبکہ دیگر مستقل ہیں۔ شرح مبادلہ کا فرق ختم کرنے کا معیار مستقل ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹس کا فرق معلوم کرنا مشکل نہیں۔ یہ باقاعدہ جاری ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کاروباری دِنوں کے دوران اِن ریٹس کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا پاکستان میں نمائندہ موجود ہے جو کسی قسم کی مداخلت پر بات کر سکتا ہے۔ ’’اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے جائزے ہیں۔ موجودہ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ میں بھی دو جائزے شامل ہیں۔ تب بھی آئی ایم ایف پاکستانی حکام سے بات کر سکتا ہے۔‘‘

پہلا جائزہ دسمبر 2023ء میں ہو گا جس کی پیشگوئی ستمبر کے اعدادوشمار پر کی جائے گی۔ اس کے بعد مارچ 2024ء میں دوسرا جائزہ ہو گا جو دسمبر کے اعدادوشمار پر مبنی ہو گا۔ پاکستان کو سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت قرض کی صرف پہلی قسط ملی ہے۔ باقی دو اقساط دونوں جائزوں کی کامیابی پر منحصر ہیں۔

مجموعی طور پر آئی ایم ایف کیلئے اپنے خدشات کا اظہار کرنے کے چار مواقع ہیں۔ چونکہ یہ ایک مسلسل بینچ مارک ہے، اگر ستمبر کے فوراً بعد خلاف ورزی ہوتی ہے تو آئی ایم ایف دسمبر میں بھی اس موضوع پر بات کر سکتا ہے۔

کیا حکومت اَب بھی نظام کے ساتھ کھیل سکتی ہے؟

اصولی طور پر اس کا جواب ہاں میں ہے کہ حکومت اب بھی سسٹم میں مداخلت کر سکتی ہے لیکن کیا حکومت ایسا کرنا چاہے گی؟ یہ البتہ الگ معاملہ ہے۔

نوید وکیل کے مطابق ’’اگرچہ (حکومت کے) ارادے واضح ہیں۔ تاہم شائد اس کے اثرات ویسے نہ ہوں کیونکہ ایک متوازی گرے مارکیٹ موجود ہے اور ریٹس کا فرق کم کرنے کی ضرورت بھی ہے۔‘‘

میکرو اکانومسٹ عمار حبیب خان کا دعویٰ ہے کہ ’’اگر اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ریٹس کو مربوط کر دیا جائے تو شیڈو کرنسی مارکیٹ کا پریمیم بڑھ جائے گا۔‘‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محدود ٹرانزیکشنز کے ذریعے اوپن مارکیٹ ریٹ کو ایک حد میں رکھا جا سکتا ہے تاکہ یہ ریٹ انٹربینک ریٹ کے مطابق رہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اوپن مارکیٹ میں ٹرانزیکشنز کو محدود کیا گیا تو غیرملکی کرنسی کی طلب شیڈو مارکیٹ سے پوری کی جائے گی جس کے نتیجے میں ڈالر کی طلب بڑھے گی اور پریمیم بھی زیادہ ہو گا۔ اس سے غیر ارادی طور پر شیڈو مارکیٹ مزید مضبوط ہو جائے گی۔

فہد رؤف کہتے ہیں ’’اگرچہ ہم نے ماضی میں آئی ایم ایف کی شرائط سے تجاوز کیا لیکن مالیاتی ادارے کے حالیہ سخت موقف کے نتیجے میں اس بار مزید سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ جاری مذاکرات کا بنیادی نکتہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’یہ دیکھتے ہوئے کہ حکومت کی مدت اگست میں ختم ہونے والی ہے، مجھے شک ہے کہ حکومت یا سٹیٹ بینک ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر مائل ہوں گے۔ نگران حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی نہیں کرے گی کیونکہ اس میں کوئی اہم سیاسی محرکات نہیں ہوتے۔ مجھے امید ہے کہ اس معیار پر عمل کیا جائے گا۔‘‘

فہد رؤف نے کہا کہ ’’ایکسچینج مارکیٹ سے غیر یقینی صورتحال ختم ہو تو استحکام بحال ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ اور چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کہتے ہیں کہ ڈالر کی مناسب قیمت 250 روپے ہے۔ تاہم موجودہ شرح مبادلہ اور آئی ایم ایف کے گائیڈلائنز کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ انٹربینک ریٹ اوپن مارکیٹ ریٹ پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔‘‘

فہد رؤف کے مطابق ’’ایسا نہیں لگتا کہ اوپن مارکیٹ ریٹ میں قابل ذکر اضافہ ہو گا۔ غیرملکی زرمبادلہ کی کافی طلب پہلے سے موجود ہے اور معیشت کے وسیع ہوتے ہی متوقع اضافہ کے ساتھ یہ ناممکن ہے کہ ہم روپے کو مذکورہ افراد کی طرف سے بتائے گئے نرخوں کے مطابق دیکھیں۔‘‘

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here