انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی سے بزنس گریجویٹ روحی رئیس خان نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی چیئرپرسن کا عہدہ سنبھال لیا۔
روحی رئیس خان ترقیاتی بینکاری سمیت مختلف شعبوں میں اعلیِ عہدوں پر کام کرنے کا تقریباً 30 سالہ تجربہ رکھتی ہیں جبکہ مختلف صنعتوں میں کام کی بھی قابل قدر مہارت حاصل ہے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت نے سوئی ناردرن کے امور پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ وہ کمپنی کی کامیابی کا سہرا بورڈ کے ساتھیوں اور سوئی ناردرن میں ہنرمند، تجربہ کار اور قابل افراد کے مابین باہمی تعاون کو دیتی ہیں۔
پرافٹ نے روحی رئیس خان کے ساتھ ایک نشست میں کچھ سوالات کیے جن کے جوابات اُن کی زبانی حاضر ہیں۔
ہمارے نمائندے کے اس پر کہ جب انہوں نے سوئی ناردرن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی چیئرپرسن کی ذمہ داری سنبھالی تو کیا اہداف مقرر کیے تھے اور ان کے حصول میں کتنی پیشرفت ہوئی؟
روحی رئیس خان نے جواب دیا کہ 2020ء میں اُن کا دور شروع ہونے کے بعد سے بورڈ نے اہم قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ ان کی توجہ گیس کے غیر شمار شدہ نقصانات (unaccounted-for gas) کا مسئلہ حل کرنے پر مرکوز ہے جن کا ذکر کسی حساب کتاب میں نہیں لیکن یہ کمپنی کے منافع کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں۔ ان نقصانات پر قابو پانا کمپنی کی ترقی کیلئے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹائزیشن، لاگت پر قابو پانے اور بہتر طریقہ کار کے ذریعے آڈٹ کا نظام مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ ایسے اقدامات کا مقصد آپریشنل کارکردگی، شفافیت اور انتظامی امور کی بہتری کو یقینی بنانا ہے جو بالآخر کمپنی کی نچلی سطح پر تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ ان اقدامات کا یہ مقصد بھی ہے کہ سوئی ناردرن پائیدار اور متحرک توانائی کمپنی کے طور پر کام کرے۔ اس کیلئے انتظامیہ کو دو اہم ہدف سونپے گئے ہیں۔ سب سے پہلے نئے پیش آمدہ مسائل، جیسا کہ قدرتی گیس کی قلت اور اس شعبے میں مسابقت کیلئے طویل المدتی حکمت عملی تیار کرنا۔ دوسرا یہ کہ آپریشنل کارکردگی کو بڑھانے اور گیس کی مد میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنے اور مارکیٹنگ سے متعلق مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنا۔
انہوں نے بتایا کہ بورڈ کی نگرانی کی وجہ سے مالی سال 21-2020ء میں غیر شمار شدہ گیس کی مد میں 15 ارب کیوبک فٹ کمی ہوئی جس سے کمپنی کو ریکارڈ منافع ہوا۔ آپریشنل اخراجات کو معقول بنانے کیلئے بورڈ کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے نتیجے میں تقریباً 2 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ انٹرنل آڈٹ کا نظام مضبوط بنایا گیا ہے۔ یہ اقدامات ناردرن کو طویل مدت میں ایک ترقی یافتہ بنانے کیلئے نافذ کیے گئے تھے۔
اس سوال پر کہ سوئی ناردرن نے گیس کے غیرشمار شدہ نقصانات کم کرنے میں نمایاں بہتری دکھائی ہے جو اس شعبے کا مستقل مسئلہ رہا ہے۔ یہ کامیابی کیسے ممکن ہوئی؟
اس پر روحی رئیس خان کا کہنا تھا کہ غیرشمار شدہ گیس کے خسارہ کو کم کرنا وفاقی حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے اور سوئی ناردرن بورڈ نے یہ چیلنج قبول کیا۔ اس خسارہ کی بلند سطح نے کئی سالوں تک کمپنی کے منافع کو بری طرح متاثر کیا۔ جولائی 2020ء سے دسمبر 2020ء تک ہم نے یو ایف جی کو 12.32 فیصد سے کم کر کے 7.56 فیصد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ گیس کے غیرشمار شدہ خسارہ کو کم کرنا متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ضروری تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ہم نے اس مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے پیٹرولیم ڈویژن سے غیر متزلزل حمایت حاصل کی۔ خیبرپختونخوا میں کرک میں یہ نقصان سب سے زیادہ ہو رہا تھا۔ صوبائی انتظامیہ سے تعاون حاصل کرنے کیلئے سوئی ناردرن کے بورڈ اور انتظامیہ نے 2020 میں خیبرپختونخوا میں اہم عہدیداروں کے ساتھ اجلاس کیے اور گیس لاسز کنٹرول کیلئے مقامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ذاتی طور پر میں نے کرک کے شورش زدہ علاقوں کا دورہ کیا جہاں سب سے زیادہ گیس ضائع ہو رہی تھی۔ اس دورہ کا مقصد یہ تھا کہ کمپنی ملازمین کو اس خسارہ کو کم کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ کرک میں سوئی ناردرن کی ٹیم کی غیر معمولی کارکردگی کو مئی 2023ء میں تسلیم کیا گیا اور انعام بھی دیا گیا۔
روحی رئیس کے مطابق ایک جامع حکمت عملی اور یو ایف جی کمیٹی کے پے در پے اجلاسوں کے ذریعے ہم نے 2019ء سے 2022ء کی مدت کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہدف کو عبور کر لیا۔ ہم ٹٓائون بورڈ سٹیشن (ٹی بی ایس) میٹرنگ جیسے اقدامات پر توجہ مرکوز کرتے رہتے ہیں، جو گیس کے ضیاع کو مزید کنٹرول کرے گا۔ ہماری تین سالہ حکمت عملی کا مقصد مستقبل میں گیس کے مسلسل ضیاع کو مستقل روکنا ہے۔
ہمارے اس استفسار پر کہ انتہائی مسابقتی ماحول میں بورڈ سوئی ناردرن کا مستقبل کیا دیکھ رہا ہے؟ روحی رئیس خان گویا ہوئیں کہ بورڈ نے ایک متحرک تذویراتی دستاویز تیار کرنے پر بہت زور دیا ہے جو کمپنی کے قابل عمل مستقبل کی سمت کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ تذویراتی دستاویز حال ہی میں مکمل ہو کر بورڈ سے منظور ہوئی ہے۔ اس میں ’’معمول کے مطابق کاروبار‘‘ اور تنوع دونوں لحاظ سے درپیش مسائل سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ہمارا مقصد کمپنی کی صلاحتیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مخصوص قابلِ عمل کاروباری تصورات کو عملی شکل میں ڈھالنا ہے۔ ہماری حکمت عملی کا مقصد ہمیشہ بدلتے ہوئے توانائی کے شعبے میں مسئال کو کم سے کم کرنا اور آزاد مارکیٹ کے ذریعے مسابقت کا آغاز کرنا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا سوئی ناردرن اپنے کاروباری اور کارکردگی کی بہتری کیلئے ٹیکنالوجی کو اپنائے گی؟
چیئرپرسن سوئی ناردرن کا کہنا تھا کہ بورڈ نے کمپنی کے اندر شفافیت اور مجموعی کارکردگی کی بہتری کیلئے ڈیجیٹلائزیشن کو ترجیح دی ہے۔ ہم نے 2020 میں ڈیجیٹائزیشن کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا جس کی وجہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹائزیشن کمیٹی کی تشکیل ہوئی۔ ایک قابل اور تجربہ کار آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم نے اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے اپنے صنعتی صارفین کو سپروائزری کنٹرول اینڈ ڈیٹا ایکوئزیشن سسٹم (SCADA) کے ساتھ منسلک کیا جس کے نتیجے میں گیس چوری کے واقعات میں کمی آئی اور تقریباً 5 ارب روپے کی گیس کی بچت اور ریکوری ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک کامیاب پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر گیس کے ریئل ٹائم پریشر کا ڈیٹا جمع کرنے کیلئے مختلف مقامات پر آئی او ٹی (internet of things) پر مبنی پریشر ٹرانسڈیوسرز متعارف کرائے ہیں۔ بڑی صنعتوں میں الیکڑونک اِنکرپٹڈ سائبر لاک نصب کیے گئے ہیں جو دیگر صنعتی صارفین کیلئے متعارف کرانے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ کمپنی کی گاڑیوں میں ٹریکرز لگائے گئے ہیں اور فیلڈ کیمپوں کے لیے بائیو میٹرک سسٹم کا نفاذ کیا گیا۔ یہ تمام اقدامات کمپنی کیلئے بچت اور بہتر طرز حکمرانی کا باعث بنے ہیں۔
ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں ڈیجیٹائزیشن کی کمی کی شکایات کے حوالے سے سوال پر روحی رئیس خان نے کہا کہ صارفین کی شکایات، گیس چوری اور لیکیج کی نگرانی کیلئے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے جاری عمل کا مقصد کمپنی کے امور میں شفافیت لانا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 4 انچ قطر کی پائپ لائنوں کو جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کے ساتھ منسلک کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں گیس لیکج اور لائن لاسز کا جلد پتہ لگانے میں مدد ملے گی جبکہ دو انچ اور ایک انچ قطر کی پائپ لائنوں کو جیوگرافک انفارمشن سسٹم کے ساتھ جوڑنے کے علاوہ پائپ لائن نیٹ ورک کی مکمل جیو ٹیگنگ 25-2024ء تک مکمل کرنے کا ارادہ ہے۔ اس سے گیس کے ترسیلی نظام میں شفافیت آئے گی۔
اس سوال پر کہ وفاقی حکومت سرکاری محکموں میں پیپر لیس ورک کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہے، سوئی ناردرن نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟
اس پر روحی رئیس خان نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے اہداف کے مطابق ہم ڈیجیٹل دستاویزات کا نظام اپنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس اقدام کا مقصد کاغذ پر مبنی فائل کو اگر ختم نہ کیا جائے تو اس کی ضرورت کو کم از کم ضرور کرنا ہے جس سے لاگت میں نمایاں بچت ہو گی۔
سوئی ناردرن میں ڈیجیٹائزیشن سے صارفین کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں چیئرپرسن سوئی ناردرن نے کہا کسٹمر سروس کمپنی کی اولین ترجیح ہے۔ ہم نے سوئی ناردرن کنیکٹ آن’ کے نام سے ایک جامع موبائل ایپ متعارف کرائی ہے جو صارفین کو تیز ترین خدمات مہیا کرتی ہے۔ اس ایپ پر صارف شکایات درج کر سکتے ہیں، بلنگ کی تاریخ دیکھ سکتے ہیں، نئے کنکشن کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، سروس کے مسائل بیان کر سکتے ہیں اور اپنے سمارٹ فونز کا استعمال کرتے ہوئے ایل پی جی سلنڈر کا آرڈر دے سکتے ہیں۔ مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کرکے صارفین کیلئے آن لائن بلوں کی ادائیگی ممکن کر دی ہے۔
اس سوال پر کہ آپ نے بطور چیئرپرسن خواتین کو بااختیار بنانے اور سوئی ناردرن میں خواتین کی مساوی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں؟
روحی رئیس خان کا کہنا تھا کہ بورڈ نے سوئی ناردرن کے اندر صنفی مساوات کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہم نے 50 سال سے زائد عرصے میں پہلی بار خواتین کو ہراساں کیے جانے کے بارے میں آگاہی سیشن کا انعقاد کیا جس کا مقصد مردوں اور عورتوں دونوں کو ہر سطح پر تعلیم دینا تھا۔ مزید برآں حال ہی میں ایک ڈے کیئر سنٹر کا افتتاح کیا ہے جس سے خواتین ملازمین کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا۔ اس اقدام نے انہیں کام کی جگہ پر اطمینان اور سکون فراہم کیا ہے جس سے وہ کام کرنے والی ماؤں کے طور پر موثر کردار ادا کر سکیں گی۔ میں نے ہمیشہ سوئی ناردرن میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ اپنی رائے اور تحفظات کا اظہار کریں۔
صنفی مساوات ضروری ہے جیسا کہ پائیدار ترقی کے اہداف میں بھی اسے نمایاں رکھا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے کارپوریٹ اور کاروباری شعبوں نے خواتین کی بتدریج شرکت کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے لیکن اس میں ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ثقافتی تبدیلیاں ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں جہاں مرد اور عورت برابر کے شراکت دار کے طور پر کام کر سکیں اور تنظیموں اور معاشرے میں ایک دوسرے کے کردار کا احترام کر سکیں۔