اسلام آباد: پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کو ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عارضی سربراہ کے ذریعے چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا ذیلی ادارہ ہے جو 190 سے زائد مصنوعات کے معیار کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔
حال ہی میں پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی میں قائم مقام ڈائریکٹر جنرل کے تقرر کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے ایک درخواست دائر کی گئی۔ عدالتی کارروائی کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ محکمہ میں 14 سالوں سے سربراہان کا تقرر عارضی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ سیف الرحمان نے جسٹس بابر ستار کے سامنے ٹھوس شواہد پیش کیے اور ڈائریکٹر جنرل پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے عہدے کو طویل مدت سے عبوری بنیادوں پر چلائے جانے کا پردہ فاش کیا۔
یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اتھارٹی کی سربراہی کیلئے کسی امیدوار کا انتخاب کرنے کی بجائے بارہا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے کسی نہ کسی سرکاری افسر کو اتھارٹی کا قائم مقام سربراہ لگایا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ عدالت نے پہلے ایک سرکاری ملازم کو قائم مقام چارج تفویض کرنے کے خلاف حکم جاری کیا تھا تاہم عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 28 مارچ 2023 کو ایک محکمانہ حکم نامے کے ذریعے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں بیسویں سکیل کے افسر زین العابدین کو پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کا عبوری چارج تفویض کر دیا گیا۔
ایڈووکیٹ سیف الرحمان نے عدالتی احکامات کی مسلسل خلاف ورزی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زین العابدین کی تقرری عدالت کے پہلے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ڈائریکٹر کا عہدہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے کسی سرکاری ملازم کو نہیں دیا جا سکتا۔
عدالت نے احکامات کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے اور قانون کی بار بار خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور وزارت کے سیکرٹری کو توہین عدالت آرڈیننس 2003 کی دفعہ 3، 5 اور 12 کے تحت شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔ انہیں جواب دینے کے لیے پانچ دن کا وقت دیا گیا۔
عدالت نے 10 اپریل 2023 کے غیر قانونی محکمانہ حکم نامے کو بھی معطل کر دیا جس کے ذریعے پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کا سربراہ غلام فاروق لانگو کو تعینات کر کے عدالت کے حکم کی ایک بار پھر خلاف ورزی کی گئی تھی۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے مذکورہ عمل کو بھی غیر مجاز اور پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ایکٹ 1996 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
توہین آمیز اقدامات پر عدالت کا سخت موقف واضح تھا۔ مقدمے کی اگلی سماعت 21 جون کو ہو گی جس کیلئے تمام ملوث افراد کو شوکاز نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں اور عدالت کے حتمی فیصلے تک غلام فاروق اور زین العابدین کو کام سے روک دیا گیا ہے۔