لاہور: اِن دنوں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور اس کی وجہ سیاسی نہیں، نہ ہی اس بات کا تعلق ان کی نیت بارے شک کرنے سے ہے۔ یہ صرف امکان کی بات ہے۔
جب سے وہ لندن سے پلٹ کر آئے ہیں بطور وزیر خزانہ مسلسل غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں جب انہوں نے پہلی بار مفتاح اسماعیل کی جگہ لی تو وہ روپے کو مضبوط رکھنے اور انتخابی مہم چلانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی بنیاد بنانے کے وعدے کے ساتھ آئے تھے۔ وہ ان دونوں میدانوں میں ناکام رہے ہیں۔
اپنی بے نتیجہ کوششوں میں انہوں نے آئی ایم ایف کو الگ کر دیا جو پہلے ہی پاکستان کی اکنامک مینجمنٹ سے کافی ناراض تھا۔ بلندوبانگ دعوئوں کے باوجود کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات کریں گے اور معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، ڈار صاحب آئی ایم ایف کو پاکستان کا مزید مخالف کرتے نظر آئے۔
فروری 2023ء میں اسحاق ڈار کی ناکامی اور شکست واضح ہو گئی جب آئی ایم ایف کا مشن پاکستان آیا اور سٹاف لیول ایگریمنٹ پر دستخط کیے بغیر واپس چلا گیا۔ اس کے بعد سے اَب تک اسحاق ڈار اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت حکومت کے دیگر ارکان کی طرف سے باقاعدگی سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ معاہدہ “بالکل قریب ہے۔”
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ‘معاہدے پر جلد دستخط ہونے والے ہیں’ جیسے الفاظ اپنی ساکھ کھوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ دیکھتے اور سنتے سنتے ہم اگلے سال کے بجٹ پر پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے الیکشن بجٹ پیش کیا ہے۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ اسحاق ڈار اَب آئی ایم ایف کی طرف پلٹنے کے لئے کشتیاں جلانے کو تیار ہیں۔ اپنی بجٹ تقریر کے فوراً بعد ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پرایک انٹرویو میں وزیر خزانہ پریشان نظرآئے۔
انہوں نے یقیناً دعویٰ کیا ہے کہ بجٹ کے بعد حکومت قرضوں کی تنظیم نو کے حوالے سے دو طرفہ شراکت داروں کے ساتھ بات چیت پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “جہاں تک پیرس کلب کی ری شیڈولنگ کا تعلق ہے، ہمارے مینو میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں، ہم کثیرالجہتی قرضوں پر نظرثانی کے لیے نہیں جائیں گے بلکہ وقت پر ادائیگی کریں گے یعنی جب وہ واجب الادا ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایک باوقار طریقہ ہے کہ جا کرانہیں یہ بتاؤ کہ ہم ادائیگی نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ خود یہ اعلان کر رہے ہیں کہ آپ ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔”
انہوں نے قوم کو یقین دلائے رکھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے پاس ایک منصوبہ ہے۔ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا بلکہ وہ ایسی باتیں کرنے والوں کو ہی تباہ حال معیشت کا ذمہ دار قرار دیتے رہے۔
مختصر یہ کہ جو دعوے کیے گئے ہیں ان پر یقین کرنا مشکل ہے۔ پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہے یا نہیں یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ راستہ اتنا آسان نہیں جتنا سینیٹر اسحاق ڈار کا دعویٰ ہے۔