
کہا جاتا ہے کہ ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں اور اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستانی پوری اور مناسب غذا نہیں کھا رہے۔
اس میں کسی بھی طور پر انتخاب کا بہت زیادہ عمل دخل نہیں۔ یہ 22 کروڑ سے زائد لوگوں پر مشتمل ملک ہے جس کی اوسط سالانہ شرح نمو 2.4 فیصد ہے اور شرح افزائش 3.6 تک ہے۔
قوم اپنے نوجوانوں کی بڑھتی تعداد پر شاداں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2030ء تک 60 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر ہو گی لیکن جس بات کو شدت سے محسوس کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ غذائی قلت کا شکار اور جسمانی طور پر کمزور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملک و قوم کیلئے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکے گی بلکہ یہ قومی وسائل پر ایک بوجھ کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانوں کے لیے زندگی بھر کی پریشانی اور مایوسی کا باعث بنیں گے۔
اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے اداے (ایف اے او) کی رپورٹ اور 2018ء کے نیشنل نیوٹریشنل سروے سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 5 سال سے کم عمر کے تقریباً نصف بچے جسمانی نمو میں کمی کا شکار ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی کا سب سے بڑا حصہ 5 سے 9 برس کی عمر کے درمیان بچوں پر مشتمل ہے۔ 2018ء میں نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق جو بچے 5 سال یا اس سے کم عمر تھے، 2030ء تک وہ جوانی کی دہلیز پر ہوں گے۔
ہم ایک ایسا ملک بھی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرے کی زد پر پہلے دس ممالک میں شامل ہے بلکہ ممکنہ طور پر کثیر خطرات سے دوچار ملک ہے۔
خطرہ صرف سیلاب سے ہی نہیں ہوتا۔ زرخیز زمین کا بنجر بننا یا صحرائوں کا پھیلائو، پانی کی کمی اور مسلسل گرم ہوتا موسم، یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور نتیجتاََ میکرو اور مائیکرو نیوٹرینٹ ویلیو نے حال ہی میں توجہ حاصل کی ہے۔ اگر 2022ء کے سیلاب کو لیا جائے تو متعقلہ اداروں اور حکام نے خوراک تک رسائی اور اس کی تقسیم میں مشکلات کی وجہ سے غذائی قلت میں 53 فیصد اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
گویا اس سے ہمارے بچوں کے بارے میں اچھی تصویر نہیں بنتی۔ ظاہر ہے کمزور اور غذائیت کی کمی کے شکار چہرے کوئی خوبصورت تصویر پیش نہیں کرتے۔ ان بچوں کو بہتر مستقبل کی ضرورت ہے۔ درحقیقت انہیں اپنے اور ملک کے مستقبل کی تیاری کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ غذائیت کی کمی کی وجہ سے ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی ہو جاتی ہے جس سے کئی طرح کے دیگر عارضے پیدا ہوتے ہیں۔
اگر ہم پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کو پورا کرنے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہمارے پاس صرف سات سال باقی ہیں تو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
انسان میں مختلف اقسام کی غذائی قلت لاغر پن، بار بار بیماری، تھکاوٹ، سانس کے مسئلے اور سیکھنے کی کم صلاحیت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ غذائی قلت بچوں کی جسمانی اور علمی نشوونما میں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔
حال ہی میں آغا خان یونیورسٹی نے ہیلتھ اکنامکس سٹڈی کرکے نتیتجہ نکالا کہ پاکستان میں غذائیت کی کمی سے سالانہ 3 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 1.33 فیصد نقصان ہوتا ہے۔ مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی (6-23 ماہ کے بچوں میں) کے براہ راست طبی اخراجات کا تخمینہ ایک کروڑ 90 لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہنگامی صورتحال جنم لے چکی ہے جس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ آفات کے دِنوں کی طرح اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے بھی میپنگ، سٹریٹجک پلاننگ اور وسائل کو کام میں لانے کی ضرورت ہے۔
وسیع تر تناظر میں غذائیت سے بھرپور فصلوں کی اقسام پر تحقیق کرنے اور ان کی کاشت کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ بہ حیثیت قوم کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی لانے کی بھی ضرورت ہے۔
ایک واضح حل سکینز (SCANS) کے تحت میپ کیے گئے بچوں کے گروپ کی خوراک میں نہ ملنے والے غذائی اجزاء، میکرو اور مائیکرو کا اضافہ ہے۔ یہ کام سکول جانے والے بچوں کو بالحاظِ عمر غذائیت سے بھرپور مفت کھانا اور دودھ کی مصنوعات فراہم کر کے کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے وسائل کی مناسب تقسیم ضروری ہے۔
پاکستان کے اڑھائی کروڑ سے زائد سکولوں سے باہر بچوں کے ساتھ ساتھ اُن بچوں کیلئے بھی کوئی حل تلاش کرنا ہو گا جن کی تعلیم قدرتی آفات، نقل مکانی یا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اُن کی غذائیت میں بہتری کے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
آبادی کے اس انتہائی اہم حصے کی صحت اور غذائیت پر توجہ مرکوز کرنا ان کی انفرادی ترقی، فلاح و بہبود اور خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند بچے قوموں کی صحت میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوں گے۔
تحریر: عافیہ سلام