پنشن بم: ’ٹیکس ریونیو کا 8 فیصد ریٹائرڈ ملازمین کی جیبوں میں چلا جائے گا‘

298

اسلام آباد: پاکستان کے وفاقی بجٹ کے اخراجات میں غالباً سب سے بڑا مسئلہ پنشن ہے۔ اگرچہ اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی،  پچھلے 12 سال میں پاکستان کے پنشن بجٹ میں صوبائی پنشن کے علاوہ 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

آئندہ مالی سال کے لیے اعلان کردہ بجٹ میں حکومت نے وفاقی ملازمین کو پنشن دینے کیلئے 761 ارب روپے رکھے ہیں، اس میں ریٹائرڈ فوجی اور سول ملازمین کی پنشن کے اخراجات شامل ہیں جبکہ ایک مجوزہ پنشن فنڈ کیلئے الگ سے اضافی 10 ارب رکھے گئے ہیں۔ اس سال پنشن کے کل اخراجات کا تخمینہ پچھلے سال کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔

بجٹ کے ساتھ حکومت نے گریڈ 1 سے 22 تک کے تمام سرکاری افسران کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملٹری پنشن کی رقم مجموعی پنشن بجٹ کا تقریباََ 74 فیصد بنتی ہے جس کا مطلب ہے کہ 761 ارب روپے میں سے 563 ارب روپے ریٹائرڈ فوجیوں کو پنشن دینے کیلئے رکھے گئے ہیں جبکہ سابق سول ملازمین کی پنشن کیلئے 188 ارب روپے بچتے ہیں۔

گزشتہ سال وفاقی حکومت نے پنشن کی مد میں 609 ارب روپے مختص کئے تھے جس میں 13 فیصد اضافہ کرنا تھا تاہم مالی سال کے دوران سخت مالیاتی ضروریات کی وجہ سے اضافہ نہ ہو سکا۔

حکومت پنشن فنڈ کیوں قائم کرنا چاہتی ہے؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم 2009 میں واپس جاتے ہیں، جب حکومت نے پہلی بار مستقبل میں ریٹائر ہونے والوں کو بھی 2009 میں دیے گئے انکریمنٹ کے وصول کنندگان میں شامل کیا تھا۔ اگلے سالوں میں اسی اقدام کو 6 سے زائد مرتبہ دہرایا گیا۔ اس کی وجہ سے 2020 کے بعد ریٹائر ہونے والوں نے بھی پنشن 2009 سے وصول کی۔ اس کی وجہ سے پنشن بل اس سطح تک پہنچ گیا جس پر وہ اب ہے۔ اگر حکومت مستقبل میں ریٹائر ہونے والوں کو موجودہ انکریمنٹ کا فریق نہیں بناتی تو بھی ماضی کے انکریمنٹ کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں پنشن کے حوالے سے کچھ متعین فوائد کا طریقہ چلتا ہے جس میں پنشن کی رقم براہ راست محکمہ خزانہ سے ریٹائرڈ ملازمین کے اکائونٹس میں فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ دنیا کا ایک متعین کنٹری بیوشن ماڈل ہے جبکہ کچھ ملکوں میں سابق ملازمین کو چند ایک فوائد دے دیے جاتے ہیں وہ بھی فنڈڈ ہوتے ہیں۔ آخر الذکر وہ طریقہ ہے جس پر موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار زور دیتے ہیں تاکہ مستقبل میں بہت بڑے پنشن بل سے بچا جا سکے۔

 کیا پی ڈی ایم حکومت اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جائے گی؟

یہ ایک مشکل سوال ہے، خاص طور پر جہاں پاکستان میں کوئی بھی بشمول وزارت خزانہ کسی بھی قسم کے بنیادی سرپلس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

موجودہ پنشن بل کل ریونیو کے 6 فیصد اور ٹیکس ریونیو کے 8 فیصد کے ساتھ حکومت کو پنشن بل میں واضح کمی لانے کے لیے 10 ارب سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ غریبوں کو ریلیف دینے اور امیروں پر ٹیکس عائد کرنے کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود حکومت اپنے ہی ملازمین کے ساتھ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ساڑھے 17 فیصد اضافے کے ساتھ ہی گریڈ 17 سے 22 کے افسران کی پنشن بہت زیادہ شرح سے بڑھ جائے گی۔

پنشن میں 17.5 فیصد اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اپنے بجٹ اخراجات میں محض 6 فیصد اضافے کا تخمینہ لگا رہی ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب ریٹائرڈ افسران کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔ اس تعداد کے لیے گزشتہ 4 سالوں میں سالانہ اوسط اضافہ تقریباََ 15 فیصد بنتا ہے۔ اس سے نہ صرف اضافی 10 ارب کی مختص رقم کم ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پنشن بجٹ کے لیے موجودہ تخمینہ لاپرواہی کے ساتھ لگایا گیا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here