وزیراعظم سکیم کے تحت صرف 15 ہزار ای بائیکس اور رکشے  ہی دیئے جائیں گے

330
Govt to limit electric bike, rickshaw scheme to 15,000 recipients

لاہور: وزیراعظم کی یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون سکیم کے تحت محض 15 ہزار درخواست دہندگان کو ہی الیکٹرک بائیکس اور رکشے دیئے جائیں گے اور اگر درخواست دہندگان کی تعداد زیادہ ہوئی تو قرعہ اندازی کی جائے گی۔

حکومت وزیراعظم سکیم کے تحت ای بائیک اور ای رکشہ کی خریداری کے لیے مالی معاونت فراہم کر رہی ہے جس کیلئے شرح سود صفر رکھی گئی ہے، اس سکیم کے تحت ذاتی ضمانت پر پانچ لاکھ روپے تک کا قرضہ لیا جا سکتا ہے جس کی مدت تین سال ہو گی۔

اس منصوبے کی فزیبلٹی کا جائزہ لینے کے لیے 10 مارچ 2023ء کو پرائم منسٹر یوتھ پروگرام، سٹیٹ بینک آف پاکستان، بینک آف پنجاب، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے مینوفیکچررز اور نیشنل رورل سپورٹ پروگرام  سمیت اہم سٹیک ہولڈرز کے نمائندوں کا ایک اجلاس بلایا گیا۔ اس تجویز کو تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے متفقہ حمایت حاصل ہوئی۔ تاہم اگر ضروری سمجھا گیا تو ای بائکس اور ای رکشہ کے لیے وزیراعظم کی یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون سکیم میں مناسب ترامیم بھی کی جائیں گی۔

’’پرافٹ‘‘ نے اس پالیسی کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے ای موٹر سائیکل اور ای رکشہ دونوں مارکیٹوں کی صنعت کے اندرونی ذرائع سے تحقیقات کیں اور ایک سوالنامہ ان کے سامنے رکھا۔

یس الیکٹرو موٹیو (YES Electromotive) کے سی ای او حسن میاں نے کہا ’’حکومتی اقدام بروقت اور ہدف پر مبنی ہے۔ اگر اسے صحیح طریقے سے انجام دیا جائے تو یہ شہریوں کو آسانی مہیا کر سکتا ہے بالخصوص جن کیلئے مہنگا پٹرول خریدنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘

تاہم چیئرمین ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسمبلرز (APMA) محمد صابر شیخ اس سے متضاد رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نہیں مانتا کہ پاکستان میں آج تک متعارف کرائے گئے الیکٹرک موٹر سائیکل قابل بھروسہ ہیں۔ یہ ابھی تک اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ کمپنیوں کو ابھی موثر مارکیٹنگ کرنی چاہیے۔ ایک بار یہ ہو جائے تو کمپنیاں صارفین کی ترجیحات کی بنیاد پر قابل عمل مصنوعات بنا سکیں گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’الیکٹرک موٹر سائیکل کے ساتھ خاص طور پر مسئلہ یہ ہے کہ چین میں استعمال ہونے والے ڈیزائن ابھی تک پوری طرح سے درآمد نہیں کیے گئے۔ اگرچہ کچھ کمپنیوں نے الیکٹرک سکوٹر متعارف کرائے ہیں۔ تاہم زیادہ تر نے سی ڈی 70 کی نقل میں موٹروں اور بیٹریوں کو جوڑا ہے۔ تاہم یہ الیکٹرک سکوٹر کے اصل ڈیزائن کے مطابق ٹھیک نہیں۔‘‘

محمد صابر شیخ نے خبر دار کیا کہ پاکستان میں ابھی تک ٹھیک طرح سے ای بائیکس بننا شروع نہیں ہوئیں۔ اس لیے اس بات کا خطرہ ہے کہ حکومت پہلے سے محدود وسائل کو ایسی مصنوعات کے پیچھے ضائع نہ کر دے جن کا واضح مستقبل نظر نہیں ٓآ رہا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here