کاشغر کو گوادر سے ملانے کیلئے 58 ارب ڈالر کا پاک چین ریل لِنک منصوبہ زیرِ غور

479

لاہور: چین کے مغربی علاقوں کو گوادر کے ذریعے بحیرہ عرب سے ملانے کیلئے 58 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے ’پاک چین ریلوے لِنک‘ منصوبہ زیرِغور ہے جس کی تذویراتی اہمیت کے پیش نظر اسے اولین بنیادوں پر شروع کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے کرائی گئی فزیبلٹی سٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ یہ ریلوے سسٹم چین کے مغربی علاقوں بالخصوص مسلم اکثریتی کاشغر ریجن کو بلوچستان میں گوادر بندرگاہ کے ساتھ ملائے گا۔

چائنا ریلوے فرسٹ سروے اور چین کے سرکاری ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ گروپ کمپنی لمیٹڈ کے سائنس دانوں کی مشترکہ طور پر کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ریل منصوبہ چین کے سب سے بڑے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ ہے جو پورے یوریشیا میں تجارت اور جغرافیائی سیاست کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔

رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ’چین میں حکومت اور مالیاتی اداروں کو اس ریلوے سسٹم کی تعمیر کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کرنی چاہیے۔ متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھانا چاہیے۔ مالی وسائل کی فراہمی کی کوشش کرنی چاہیے اور اس منصوبے کی تعمیر کیلئے ایک مضبوط پالیسی سپورٹ اور ضمانتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔‘

یہ بھی پڑھیے: 

سی پیک کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے کراچی کیلئے بڑا اقتصادی ٹرانسفارمیشن پروجیکٹ شروع

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اربوں ڈالر کے غیرفعال قرضوں کے بوجھ تلے دبنے لگا

رپورٹ کے مطابق ’تین ہزار کلومیٹر طویل پاک چین ریلوے سسٹم آبنائے ملاکا کو بائی پاس کرتے ہوئے چین کے مغربی علاقوں کو گوادر کے راستے بحیرہ عرب سے جوڑے گا اور بحیرہ جنوبی چین پر انحصار کم کر دے گا۔‘

یہ ریلوے نظام بین الاقوامی تجارت کے دیگر ترسیلی نظاموں بالخصوص ایران اور ترکی کو جوڑتے ہوئے چینی مصنوعات کی یورپ تک براہ راست رسائی کو مزید آسان اور تیز تر بنا دے گا جبکہ اس کی وجہ سے پاکستان میں ناصرف انفراسٹرکچر کو ترقی ملے گی بلکہ چین کے ساتھ تجارت کو بھی کئی گنا زیادہ فروغ ملے گا۔

مذکورہ تحقیق میں شامل سائنس دانوں نے نشاندہی کی ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت آج تک تعمیر کیے گئے ٹرانسپورٹ منصوبوں کیلئے زیادہ تر مالی وسائل میزبان ممالک کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں اور چینی مالیاتی اداروں کو بہت کم سرمایہ کاری کرنا پڑی۔ تاہم پاکستان کے لحاظ سے صورت حال اس لیے مختلف ہے کیونکہ کمزور معیشت کی وجہ سے یہ اس طرح کا تعاون کرنے سے قاصر ہے۔ توانائی کی قلت، سرمایہ کاری کیلئے ناسازگار ماحول اور مالیاتی خسارے کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی نمو دباؤ کا شکار ہے۔

’’اس لیے مجوزہ ریلوے سسٹم پر سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان خاطر خواہ مالی اور مادی مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے اور چینی اداروں پر انحصار کرتا ہے۔‘‘

سٹڈی میں پاکستان کے حوالے سے کچھ مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر کیلئے کئی قسم کے مددگار انفراسٹرکچر کی ضرورت ہو گی جیسا کہ بندرگاہیں اور لاجسٹک سہولیات وغیرہ۔ جو شائد پاکستان میں فوری طور پر دستیاب نہ ہوں۔ پاکستان کی غیر متوقع لیبر پالیسیاں بھی منصوبے کی لاگت کو متاثر کر سکتی ہیں جبکہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں اس منصوبے کیلئے بہترین سرمایہ کاری اور مالیاتی حکمت عملی کے طور پر ’’تعمیر کرو اور منتقل کرو‘‘ (bulid & transfer) کا ماڈل تجویز کیا گیا ہے۔

اس ماڈل کے تحت ایک ٹھیکیدار ریلوے سسٹم کی ڈیزائننگ سے لے کر تعمیر اور مالی وسائل کی فراہمی تک کا ذمہ دار ہو گا۔ منصوبے کی تکمیل پر ادائیگی کی جائے گی اور ملکیت حکومت یا متعلقہ ادارے کو منتقل کر دی جائے گی۔ اس ماڈل پر عمل کرتے ہوئے منصوبے کی تعمیر کے دوران پیش آمدہ مالی یا مادی مشکلات اور خطرات کے سدباب کیلئے پاکستان اور چین ایک دوسرے سے تعاون کریں گے جس سے ممکنہ طور پر فریقین کیلئے مالیاتی خطرات کم ہو جائیں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here