آئی ایم ایف کی پاکستانی کی شرح نمو 0.5 فیصد رہنے کی پیشگوئی

تقریباً 90 فیصد ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو رواں سال سست روی کا سامنا ہو گا، کم آمدن والے ممالک کو زیادہ قرض لینے کی لاگت اور برآمدات کی طلب میں کمی سے دوہرا صدمہ پہنچنے کی توقع ہے

328

لاہور: عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی شرح نمو رواں مالی سال 2 فیصد سے کم ہو کر 0.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

حال ہی میں جاری ورلڈ اکنامک آئوٹ لُک رپورٹ میں یہ بھی پیشگوئی کی گئی ہے کہ مالی سال 2024ء میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.5 فیصد رہے گی۔ افراطِ زر مالی سال 2023ء میں تقریباً 27.1 فیصد اور مالی سال 2024ء میں کم ہو کر 21.9 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جبکہ مالی سال 2023ء اور مالی سال 2024ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بالترتیب 2.3 فیصد اور 2.4 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی شرح نمو کے تخمینے میں کمی اس وقت سامنے آئی ہے جب عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اپنی پیش گوئیاں بالترتیب 0.4 فیصد اور 0.6 فیصد تک کم کر دی تھیں۔ ملک کی معیشت بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، مہنگائی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہے، کئی کمپنیاں بند ہو رہی ہیں اور آئی ایم ایف کی جانب سے اقتصادی بیل آؤٹ کے اجرا میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کوغیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

ورلڈ اکنامک آئوٹ لُک عالمی معیشت کی بھی زیادہ حوصلہ افزا تصویر پیش نہیں کرتا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 90 فیصد ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتوں کو اس سال سست روی کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ ایشیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں اقتصادی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے جس میں بھارت اور چین تمام ترقی کا نصف حصہ ہیں۔ کم آمدنی والے ممالک کو زیادہ قرض لینے کی لاگت اور ان کی برآمدات کی مانگ میں کمی سے دوہرا صدمہ پہنچنے کی توقع ہے جس سے غربت اور بھوک مزید بڑھ سکتی ہے۔

آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ عالمی افراط زر رواں سال 7 فیصد تک کم ہو جائے گا جو گزشتہ سال کے 8.7 فیصد سے کم ہے لیکن یہ اعدادوشمارامریکی فیڈرل ریزرو اور دنیا بھر کے دیگر مرکزی بینکوں کے مقرر کردہ 2 فیصد کے ہدف سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ میں بہت سے ممالک میں کم پیداواری صلاحیت اور جغرافیائی سیاسی تناؤ کے بارے میں خدشات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو ترقی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here