سیاسی و اقتصادی بحران: بزنس کمیونٹی کا سیاستدانوں پر گرینڈ ڈائیلاگ کیلئے دبائو

رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض ڈائیلاگ کی تجویز دینے میں پیش  پیش، ڈائیلاگ کا آئیڈیا سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور موجودہ چیف جسٹس بھی دے چکے، عمران خان  کے رویے میں بھی لچک آ گئی مگر اتحادی حکومت کو کون سمجھائے!

594
business-tycoons-stress-grand-political-dailogue-to-end-economic-meltdown

لاہور: پاکستان کو درپیش سیاسی و اقتصادی بحرانی صورتحال  نے آخر کار بزنس کمیونٹی  کو  سیاستدانوں  پر آپس میں مل بیٹھنے اور باہمی مذاکرات کے لیے دباو ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بحران  سیاست اور معیشت کے میدانوں اور آئین و قانون کے ایوانوں سے ہوتا ہوا بری طرح سماجی  بگاڑ، انتشار اور انارکی کا سبب بن رہا ہے۔

رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض نے موجودہ ملکی صورت حال کو سیاسی اور اقتصادی حوالے سے نہایت پریشان کن قرار دیا ہے اور اس  ابتر صورت حال سے نکلنے کا حل بتاتے ہوئے گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی ہے۔
اُن کی یہ تجویز عین اس موقع پر سامنے آئی  جب  چیف جسٹس آف پاکستان  عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ  پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے  الیکشن کمیشن  کے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات 8 اکتوبر تک موخر کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہا تھا اور چیف جسٹس  خود  بھی  ملک میں  سیاسی  حدت کم کرنے  کے لیے  پولیٹیکل ڈائیلاگ کی بات کر چکے ہیں۔
ملک ریاض کا کہنا ہے کہ اُن کی خواہش ہے کہ  ساری سیاسی اور آئینی قیادت  مسئلے کا حل نکالنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری شناخت پاکستان  ہی  سے ہے اس کے بغیر ہم کچھ  بھی نہیں۔
گرینڈ ڈائیلاگ  کا آئیڈیا عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے  بھی  پہلے سے دیا جا رہا ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ  سابق  چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے  بھی اس طرح کے ڈائیلاگ  کی تجویز دی تھی۔  تحریک عدم اعتماد  کے مسئلے پر پی ٹی آئی  نے  ان دنوں  سیاسی ڈائیلاگ سے انکار کر دیا تھا مگر اب اس جماعت کی طرف سے لچک کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جیسا کہ صحافیوں کے ساتھ  گزشتہ دنوں کی  گئی ملاقات میں چیئرمین  پی ٹی آئی عمران خان نے  کہا کہ  وہ ملک کی خاطر کسی سے  بھی بات کرنے پر رضامند ہیں۔
تاہم  حکومتی اتحاد کا رویہ  غیر لچکدار دیکھنے کو مل رہا ہے اور وہ اسے اپنی کمزوری  قرار دے رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے  قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پہلے قوم سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگیں پھر ہی ان سے  مذاکرات ممکن ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ  عمران خان نے  کورونا وائرس کے دنوں  میں اور ملک میں سر اٹھاتی دہشتگردی کے مسئلے پر ان کی  طرف سے مذاکرات کی پیشکش بار بار رد کر دی تھی۔
کاروباری افراد کی طرف سے سیاسی قیادت پر دبائو ڈالنے کی تجویز موجودہ صورت حال میں ایک نئی اور اہم پیش رفت ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے سی ای او احسان ملک نے کہا ہے کہ  سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آئی  ایم ایف سمیت عالمی برادری میں پاکستان کے اعتماد میں شدید کمی آئی ہے، حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں معیشت شدید نقصان اٹھا رہی ہے، جب تک ہم سیاسی طور پر متحد نہیں ہوں گے معیشت کی بحالی بھول جائیں۔ کیوں کہ  ایک منقسم  قوم پر کوئی کیسے اعتماد کرے گا اور کیسے  مالی امداد دے گا؟
انہوں نے سیاسی قائدین  سے اپیل کی کہ  مصالحانہ  سیاست کریں  اور معیشت کی بحالی کے لیے  فوری اقدامات کریں۔ احسان ملک نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں اصل سٹیک ہولڈرز راولپنڈی میں ہیں اس لیے حکومتی لوگوں سے مذاکرات کرنا بے معنی ہے۔ سیاسی قیادت کو میثاق معیشت پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ  بھی تجویز دی کہ سٹیک ہولڈرز کو ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے اور گردشی قرضے کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری محمد طارق یوسف کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ملکی مفاد کی خاطر مذاکراتی میز پر بیٹھنا ہو گا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر سیاسی بحران ایسے ہی جاری رہا تو  ماہِ رمضان کے آخر یا عید کے بعد معیشت مزید خطرات میں گھر جائے گی اور اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہ ہو سکا تو قوم کو آنے والے مہینوں میں 50 فیصد سے زیادہ ہوشربا مہنگائی  کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بزنس کمیونٹی کی طرف سے  حکومت یا سیاسی قائدین پر دباو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ کاروباری افراد کو معلوم ہے کہ سیاسی عدم استحکام  دور ہو گا تو معاشی استحکام آئے گا اور کاروبار چلیں  گے، معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو گا اور ملک ترقی کرے گا، لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئے گی۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ عین اس وقت جب  معیشت کی گاڑی  گرداب میں پھنسی ہے مقننہ، عدلیہ، ادارے، سیاسی پارٹیاں وغیرہ  اپنی اپنی طاقت منوانے کے جتن کر رہے ہیں یا اپنی اپنی کھال بچا رہے ہیں۔ قوم مایوسی اور نا امیدی کے پاتال میں گر رہی ہے یہاں تک کہ  عالمی برادری کی نظر میں پاکستان  ایک مذاق بننے کے قریب ہے۔ اگر کوئی پاکستانی صورتحال  کی سری لنکا اور لبنان کے ساتھ  مماثلتیں تلاش کر رہا ہے تو اس پر سنجیدگی سے فکرمند ہونا چاہیے۔
پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی ہی نہیں آئینی و قانونی بحران بھی نظر آ رہا ہے۔ عدلیہ کی تقسیم  دیکھنے کے لیے محدب عدسہ لگانے کی ضرورت  نہیں مگر عدلیہ کا متنازعہ بننا اور بھی خطرناک ہے۔ تاریخی طور پر اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلے۔
مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ غریب عوام کے  امیر طبقے کے خلاف انتہائی منفی جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ سستے راشن اور مفت آٹے  کی تقسیم کے موقع پر لگ بھگ ایک درجن کے قریب جانیں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ پرائیویٹ سیکٹر زبوں حالی کا شکار ہے، لاکھوں لوگ بے روز گار ہیں، غریب کے لیے پیٹ پالنا اور سفید پوش طبقہ کے لیے اپنا بھرم قائم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
تو ایسے میں کاروباری افراد  کا اتحادی حکومت اور اپوزیشن کو ٹکرائو کے بجائے مصالحت کا راستہ اپنانے اور کڑواہٹ کو کم کرکے دھیمہ لہجہ اپنانے  کی تجویز  دینا ایک نئی پیش رفت ہے۔ ان کی طرف سے  کہا جا رہا ہے کہ کاروباری گروپوں یا افراد چاہے ان کا سیاسی نظریہ کوئی بھی ہو  اور ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، کو اب متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ان کا ماننا ہے کہ سیاسی قیادت پر گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے دبائو ہی موجودہ سیاسی و اقتصادی بحران سے نکلنے  کا واحد حل ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here