ملٹی نیشنل ریٹیل کارپوریشن وال مارٹ (Walmart) امریکا سمیت تقریباََ 24 ملکوں میں 10 ہزار سے زائد سپر مارکیٹس، ڈیپارٹمنٹل اور گروسری سٹورز چلاتی ہے۔
مئی 2022ء کی فارچون میگزین کی ’گلوبل 500 لسٹ‘ کے مطابق وال مارٹ کی کل آمدنی 570 ارب ڈالر تھی جو کئی ملکوں کے جی ڈی پی سے دُگنی ہے۔
لیکن آپ کو شائد یہ جان کر حیرت ہو کہ پونے چھ سو ارب ڈالر سالانہ آمدنی کی حامل اِس کمپنی کے بانی سام والٹن ایک غریب کسان تھے جن کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی گئی کہ وہ کبھی کاروبار نہیں کر سکتے۔
سیمیول مورے والٹن 28 مارچ 1918ء کو امریکی ریاست اوکلاہوما کے قصبے کنگ فِشر (Kingfisher) میں ایک کسان تھامس والٹن کے ہاں پیدا ہوئے۔
سام والٹن کے بچپن میں ہی اُن کے والدین اپنا فارم گروی رکھ کر ریاست اوکلاہوما سے میسوری منتقل ہو گئے اور روزگار کیلئے چھوٹے موٹے کام شروع کر دیے۔
1929ء میں شروع ہونے والی گریٹ ڈپریشن کی وجہ سے عالمی جی ڈی پی منفی 26 فیصد تک گر گیا اور دنیا میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد تک پہنچ گئی۔ ایسے میں دال روٹی کمانے کیلئے سارے خاندان کو دن رات محنت کرنا پڑتی تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
امریکی ڈالر اتنا طاقت ور کیوں ہے؟
پاکستان کو چھوڑیں، چین امریکا میں بھی اربوں ڈالر کے اثاثوں کا مالک
والٹن خاندان کیلئے بھی یہ مشکل ترین دور تھا۔ تب سام والٹن دس بارہ سال کے تھے۔ انہوں نے والدین کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور دودھ فروخت کرنے لگے۔ ایک وقت پر سکول کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اخبار “کولمبیا ڈیلی ٹربیون” بھی بیچا اور دو وقت کی روٹی کیلئے ایک ہوٹل میں ویٹر کی نوکری بھی کی۔
1940ء میں میسوری یونیورسٹی سے اکنامکس میں گریجوایشن کے بعد انہیں 75 ڈالر ماہانہ پر جے سی پینی (J C Penny) ڈیپارٹمنٹل سٹور میں مینجمنٹ ٹرینی کی پہلی نوکری مل گئی۔ یہ سام کا ریٹیل انڈسٹری میں پہلا قدم تھا۔
لیکن یہ نوکری انہیں کچھ ایسی پسند نہ تھی کیونکہ حساب کتاب میں قدرے کمزور ہونے کی وجہ سے کمپنی کا مالک نے انہیں کئی بار نوکری سے نکالنے کی دھمکی دے چکا تھا۔ اسی وجہ سے سام نے بھی کئی بار سوچا کہ شائد ریٹیل بزنس میں ان کا کوئی مستقبل نہیں۔
ڈیڑھ سال جے سی پینی میں کام کرنے کے بعد 1942ء میں انہوں نے نوکری چھوڑی اور فوج میں چلے گئے۔ انہیں انٹیلی جنس کور میں شامل کرکے اوکلاہوما میں جنگی طیاروں کے پلانٹ کا نگران مقرر کیا گیا۔ ملٹری سروس میں وہ کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔
یہیں ان کی ملاقات ہیلن سے ہوئی اور انہوں نے 1943ء میں ویلنٹائنز ڈے پر شادی کر لی۔ 1945ء میں جنگ ختم ہو گئی تو سام نے فوج چھوڑ کر اپنا ریٹیل بزنس شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔
پانچ ہزار ڈالر کی ذاتی بچت اور 20 ہزار ڈالر اپنے سُسر سے قرض لے کر انہوں نے ارکنساس (Arkansas) میں بین فرینکلن سٹورز (Ben Franklin) کی فرنچائز خرید لی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ گریٹ ڈپریشن اور پھر جنگ عظیم کی وجہ سے اُس وقت امریکا میں لاکھوں ریٹیل سٹورز بند ہو چکے تھے اور ایسے کاروبار میں سرمایہ لگانا خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔
سام نے دو بنیادی فیصلے کیے جو مارکیٹ کی روایت سے ہٹ کر تھے۔ انہوں نے بڑی کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے کی بجائے چھوٹے مینوفیکچررز کو تلاش کرکے اُن کی مصنوعات اپنے سٹور پر فروخت کرنا شروع کیں اور اپنے منافع کی شرح کم رکھی۔
یہ کوئی غیرمعمولی کام نہیں تھا لیکن اس کا نتیجا یہ نکلا کہ لوگوں کو چیزیں سستی ملنے لگیں تو وہ دیگر سٹورز پر جانے کی بجائے سام کے سٹور کا رُخ کرنے لگے۔ محض تین سالوں میں وہ اس قابل ہو چکے تھے کہ قرض چکا سکیں اور نئے سٹور کھول سکیں۔
1962ء اُن کی زندگی کا فیصلہ کن سال ثابت ہوا جس نے ناصرف سام والٹن کی زندگی بدل دی بلکہ امریکا میں ریٹیل انڈسٹری کا رُخ بھی موڑ دیا۔
2 جولائی 1962ء کو سام والٹن نے ریاست ارکنساس کے شہر Rogers میں پہلا وال مارٹ ڈسکائونٹ سٹور کھولا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سٹور ایک چھوٹے شہر میں کھولا گیا تھا۔ حالانکہ کمپنیاں نئے سٹورز کھولنے کیلئے زیادہ تر بڑے شہروں کے سب سے پُررونق کاروباری علاقوں کا انتخاب کرتی ہیں لیکن سام نے روایت کے برعکس کچھ الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان کا نظریہ تھا کہ چھوٹے شہروں میں مسابقت کم ہونے کی بنا پر ایک ہی بڑا سٹور صارفین کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے اور کسی دوسری کمپنی کے مقابلے پر آنے کا امکان کم ہوتا ہے۔
پہلا سٹور کھلا تو اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ وال مارٹ پر زیادہ تر امریکی ساختہ اشیاء فروخت ہوں گی۔ اس مقصد کیلئے درجنوں چھوٹے مینوفیکچررز کے ساتھ معاہدے کیے گئے کہ وہ غیرملکی کمپنیوں کی نسبت کم قیمت پر مصنوعات فراہم کریں۔
یہ بھی پڑھیے:
غریب سائیکل مکینک کا بیٹا جس نے اربوں ڈالر کی ہونڈا کمپنی قائم کی
گوتم اڈانی: کالج ڈراپ آئوٹ سے دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص بننے تک
سام والٹن پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے سٹورز پر سیلف سروس شروع کی اور پارکنگ فیس ختم کر دی۔ زیادہ تر سٹورز پر پارکنگ فیس کی وجہ سے لوگوں کو ہمیشہ جلدی میں شاپنگ کرنا پڑتی تھی۔
لیکن وال مارٹ پر لوگ سٹور میں جاتے۔ اطمینان سے اپنی ضرورت کی چیزیں پسند کرتے اور داخلی دروازے کے پاس بنے کائونٹر پر ادائیگی کرکے چلے جاتے۔ صارفین کی رہنمائی کیلئے اضافی ملازمین کی ضرورت نہ رہی تو اس سے ہونے والی بچت سے وال مارٹ نے چیزیں مزید سستی کر دیں۔ یہ آئیڈیا اس قدر کامیاب رہا کہ محض ایک سال میں وال مارٹ کی سیلز تین گنا بڑھ گئیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جس چیز نے وال مارٹ کو حریف ریٹیل کمپنیوں سے ممتاز کیا وہ یہ تھی کہ کمپنی نے لوجسٹکس پر خاص توجہ دی۔ سام والٹن نے ذاتی ٹرک سروس شروع کی اور ایسا بزنس ماڈل بنایا کہ وال مارٹ کے علاقائی وئیر ہائوس سے سامان محض ایک دن میں ہر سٹور تک پہنچ جاتا۔ اس پالیسی کو بھی سختی سے اپنایا گیا کہ سٹورز میں کبھی کوئی ریک خالی نظر نہ آئے۔
صارفین کی سہولت کو زیادہ سے زیادہ مدنظر رکھنے پر مبنی اس بزنس ماڈل نے سام والٹن کو امریکی ریٹیل انڈسٹری کا کامیاب ترین انٹرپرینیور بنا دیا۔
1970ء میں سام والٹن نے 50 لاکھ ڈالر کی پہلی آئی پی او سے وال مارٹ کے 39 فیصد شئیرز فروخت کر دیے اور حاصل شدہ آمدن سے نئے سٹور کھولنے کا فیصلہ کیا۔
1985ء تک امریکا میں 800 وال مارٹ سٹورز کھل چکے تھے اور کمپنی نے ہر سال 100 نئے سٹور کھولنے کا ہدف مقرر کیا۔
1990ء میں وال مارٹ نے اپنے کاروبار کو امریکا سے باہر توسیع دینے کا فیصلہ کیا اور 1991ء میں میکسیکو میں پہلا وال مارٹ سٹور کھولا۔
5 اپریل 1992ء کو جب 74 سالہ سام والٹن کا انتقال ہوا تو ایک ہزار 7 سو 35 وال مارٹ سٹورز، 212 سامز کلبز (Sam’s Club) اور 13 سپر مارکیٹس سے کمپنی کی سالانہ آمدنی تقریباََ 104 ارب ڈالر تھی اور اس کے ملازمین کی تعداد تین لاکھ 80 ہزار تھی۔
سام والٹن کی وفات کے بعد ان کے بچوں روب والٹن اور جان والٹن نے کاروبار کا انتظام سنبھالا۔ وال مارٹ نے 1994ء میں کینیڈا، 1995ء میں جنوبی امریکی ممالک اور 1999ء میں یورپ میں قدم رکھے۔
2005ء تک امریکا اور یورپ میں ریٹیل گروسری بزنس کا تقریباََ 20 فیصد شئیر وال مارٹ کے پاس تھا اور امریکا میں ہر 97 کلومیٹر پر ایک وال مارٹ سٹور قائم ہو چکا تھا جبکہ امریکا کے پہلے دس امیر ترین افراد میں سے پانچ کا تعلق والٹن خاندان سے تھا۔
آج وال مارٹ کے دنیا بھر میں 10 ہزار 585 ریٹیل سٹورز قائم ہیں جبکہ 23 لاکھ ملازمین اور 576 ارب ڈالر سے زائد سالانہ آمدنی کے ساتھ یہ دنیا کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہے۔
اس کمپنی کی ترقی کو معاشی ماہرین’’وال مارٹ ایفیکٹ‘‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ جس علاقے میں بھی کمپنی نیا سٹور کھولتی ہے وہاں معاشی حالات بدلنے میں اس کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔