کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے موبائل فون میں ہر کام کیلئے الگ الگ ایپ انسٹال کرنے کی بجائے ایک ہی ایسا پورٹل ہو جو آپ کی ہر ضرورت پوری کر دے۔
آپ نے کسی دوست کو کال کرنی ہو، کسی عزیز کو آن لائن رقم بھیجنی ہو، پیزہ آرڈر کرنا ہو، بجلی کا بل ادا کرنا ہو، رائیڈ بُک کرنی ہو، بچے کی سکول فیس ادا کرنی ہو یا کسی فلم کا ٹکٹ خریدنا ہو تو آپ کو پانچ سات قسم کی ایپس کی ضرورت پڑے گی۔
لیکن اگر یہ تمام سہولتیں ایک ہی ایپ سے مل جائیں تو کیسا رہے گا؟ یہ سپر ایپ کہلاتی ہے جو کہ فی زمانہ کافی مقبول ہو رہی ہے۔
گوگل پلے سٹور پر روزانہ تقریباََ چار ہزار ایپس رجسٹر ہوتی ہیں جن کی مجموعی تعداد جولائی 2022ء تک 34 لاکھ 80 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ ایپل سٹور پر بھی تقریباََ 22 لاکھ ایپس رجسٹر ہیں۔
لیکن محض چند ایک ہی سپر ایپس ہیں۔ سپر ایپ بے شمار سروسز کا مجموعہ ہوتی ہے جو ایک دوسری سے ملتی جلتی نہ بھی ہوں لیکن کام ایک ہی ایپ میں کر رہی ہوتی ہیں۔
پاکستانی تناظر میں یوں سمجھیے کہ فیس بک، وٹس ایپ، انسٹاگرام، گوگل میپس، دراز اور ایزی پیسہ کو ایک ہی ایپ میں جمع کر دیا جائے تو سُپر ایپ بن جائے گی۔
چین کی وی چیٹ (WeChat) اور علی پے (Alipay)، سنگاپور کی گریب (Grab)، انڈونیشیا کی گو ٹو (GoTo)، ویتنام کی زالو (Zalo) اور جنوبی کوریا کی کاکائو (Kakao) سُپر ایپس ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر رائیڈ سروس یا میسجنگ ایپ کے طور پر شروع ہوئیں اور بعد ازاں فنانشل سروسز، فوڈ ڈلیوری، ڈیجیٹل پیمنٹ، گیمنگ، ٹریول بُکنگ، یوٹیلیٹی بل پیمنٹ، ائیرلائن ٹکٹنگ، موبائل فون ٹاپ اپس، میوزک سٹریمنگ اور سوشل نیٹ ورکنگ بھی شروع کر دی۔
آج کی ڈیجیٹل دنیا میں کروڑوں صارفین کا اِن ایپس سے جڑ جانا بالکل فطری ہے۔ بالخصوص دنیا کی آدھی آبادی کے حامل ایشیا میں اِن ایپس کی کامیابی کی وجہ صارفین کا وسیع و عریض نیٹ ورک ہی بنا۔
سنگاپور کی گریب تھائی لینڈ اور ویتنام سمیت آٹھ ملکوں کے 428 شہروں میں تقریباََ 19 کروڑ صارفین کو ڈلیوری، فنانشل سروس اور رائیڈ بکنگ کی سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔
گو ٹو (GoTo) انڈونیشیا کی سب سے بڑی ٹیک کمپنی اور ایک کھرب ڈالر کی جی ڈی پی میں دو فیصد کی حصہ دار بن چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
چین میں رئیل اسٹیٹ بحران، دنیا کیوں پریشان ہے؟
جب شمسی توانائی کی بہتات نے ایک ملک میں بحران پیدا کر دیا
آن لائن سٹورز کو واپس بھیجے گئے مال کو پھر سے بیچنا، اربوں ڈالر کی انڈسڑی بن گئی
بھارت کے سب سے بڑے سٹارٹ اَپ Paytm کے صارفین کی تعداد 35 کروڑ سے زائد ہے۔ یہ اَب لائسنس یافتہ ڈیجیٹل بینک بن چکا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا کی 87 فیصد آبادی کاکائو استعمال کرتی ہے۔
تاہم زیادہ تر سپر ایپس ایشیا میں کامیاب رہی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ٹیکنالوجی میں آگے ہونے کے باوجود کم ہی سپر ایپ دیکھنے کو ملیں گی۔ اس کی چند ایک وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ کہ کسی خطے میں لوگ نئی ٹیکنالوجی کو کتنی جلدی قبول کرتے ہیں۔ جن ملکوں کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے وہاں سمارٹ ٹیکنالوجی کو جلدی قبولیت مل رہی ہے۔ ایشیا کی اکثریتی آبادی بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ پہلی وجہ ہے کہ زیادہ تر سپر ایپس ایشیا میں کامیاب ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق سمارٹ فون استعمال کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا میں سب سے آگے ہیں جبکہ جاپان اور انڈونیشیا بھی پہلے دس ملکوں میں شامل ہیں۔
دوسری وجہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک آسان رسائی ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران چینی کمپنیوں نے اعلیٰ معیار کے کم قیمت سمارٹ فون بنا کر عام آدمی کیلئے قابلِ خرید بنا دیے ہیں۔ اس کے علاوہ 73 فیصد چینیوں کو انٹرنیٹ میسر ہے۔
علی پے اور وی چیٹ کے سپر ایپس بننے کے پیچھے یہی دو محرکات ہیں۔ آپ کسی چینی گائوں میں بھی علی پے یا وی چیٹ کے ذریعے ادائیگی کر سکتے ہیں۔
کوئی بھی ایپ عام طور پر ایک آدھ سروس کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ مثلاََ میسجنگ، رائیڈ شئیرنگ یا پھر ڈلیوری سروس۔ ابتدائی کامیابی کے بعد مزید سروسز شامل کی جاتی ہیں۔
لازم نہیں کہ کسی ایک ملک میں کامیاب سُپر ایپ کسی دوسرے ملک میں بھی کامیاب ہو۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ایپ ڈویلپر مقامی ضروریات اور مسائل کو کس حد تک مدنظر رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر انڈونیشیا کی گوجیک (Gojek) نے بائیک رائیڈ اور کال سینٹر کے طور پر آغاز کیا۔ اُس وقت زیادہ تر لوگوں کے پاس موبائل فون نہیں تھے تو کمپنی نے اپنے بائیکرز کو موبائل فون خریدنے کیلئے آسان قرضے فراہم کیے۔
اگر آپ سفری سہولیات سے متعلق کوئی سٹارٹ اپ شروع کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کو اپنے ٹارگٹ علاقے کی ٹریفک کی صورتحال اور ٹرانسپورٹ کلچر کا مکمل علم ہو۔ لاہور یا کراچی میں آپ چین، سنگاپور یا جنوبی کوریا کا ماڈل نہیں لا سکتے۔
سپر ایپس صرف ایشیا میں ہی نہیں بلکہ لاطینی امریکی اور افریقی ممالک میں بھی تیزی سے قبولِ عام پا رہی ہیں۔ گو کہ معاشی پسماندگی کی وجہ سے ایک قسم کا ڈیجیٹل خلاء موجود ہے لیکن وہ بھی تیزی سے پُر ہو رہا ہے کیونکہ ان ملکوں کی نوجوان نسل میں بھی انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ چینی کمپنیاں بھی ان مارکیٹوں میں سستے سمارٹ فون متعارف کروا رہی ہیں۔
یورپ اور امریکا میں سپر ایپس نہ ہونے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ چونکہ چین نے فیس بک، وٹس ایپ، ٹویٹر اور گوگل کے متبادل اپنے پلیٹ فارم بنا رکھے ہیں جس کی وجہ سے مسابقت نہیں رہی۔ چینی کمپنیوں کیلئے اپنے ہی ملک کی بڑی آبادی بطور صارف موجود ہے اور مقابلے پر بھی کوئی نہیں۔
لیکن امریکا اور یورپ میں کمپنیوں کے مابین مسابقتی دوڑ بہت سخت ہے۔ مثلاََ ایپل کے آئی میسج کا مقابلہ فیس بک کے وٹس ایپ اور میسنجر سے ہے۔ یہی مسابقت کسی ایک کمپنی کو مارکیٹ پر اس طرح اجارہ داری قائم نہیں کرنے دیتی کہ وہ سُپر ایپ بنا لے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ چین میں ڈیٹا پرائیویسی کے قوانین یورپ اور امریکا جیسے سخت نہیں۔ بڑی چینی کمپنیوں کے پاس کروڑوں صارفین کا ڈیٹا موجود ہے جسے وہ اپنی مختلف سروسز کیلئے استعمال کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ چینی صارفین کو اپنی پرائیویسی کی پروا نہیں۔
اس کے برعکس یورپ ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے بہت حساس ہے اور اس کے قوانین کافی سخت ہیں۔
سپر ایپس کا زیادہ تر انحصار بھی کے ڈیٹا پر ہوتا ہے۔ وہ ایک سروس کیلئے محفوظ کیا گیا صارف کا ڈیٹا کسی دوسری سروس کیلئے بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ جو کہ چین جیسے ملک میں آسان جبکہ یورپ اور امریکا میں کافی مشکل ہے۔
پاکستان میں باضابطہ طور پر تو کوئی سُپر ایپ موجود نہیں کیونکہ ایک وقت تک ٹیلی کام کمپنیاں محض کال اور میسج سروس سے آگے نہیں بڑھی تھیں اور وٹس ایپ اور میسنجر جیسی ایپس کی موجودگی میں ٹیلی کام کمپنیوں کا کردار محض انٹرنیٹ پرووائیڈر کا رہ گیا تھا۔
ایک زمانے میں جاز نے چین کی وی چیٹ کی طرز پر Veon کے نام سے سُپر ایپ لانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہی۔ کیونکہ پاکستان چین نہیں ہے جہاں گوگل کا متبادل بیڈو (Baidu)، ایمازون کا متبادل علی بابا اور فیس بک اور وٹس ایپ کا متبادل وی چیٹ موجود ہے۔
اس کے باوجود ٹیلی کام کمپنیاں اپنی ایپس کے ذریعے ڈیجیٹل پیمنٹ، بینکنگ، شاپنگ اور موبائل ٹاپ اپ جیسی سہولیات دے رہی ہیں۔ جاز کیش، ایزی پیسہ اور یو بینک اس کی مثالیں ہیں۔
اَب مخصوص نیٹ ورک کا مسئلہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ آپ کا نیٹ ورک خواہ کوئی بھی ہو لیکن آپ ایزی پیسہ اکائونٹ کھول سکتے ہیں۔ ایزی پیسہ اور جاز کیش میسج اور کال کو چھوڑ کر تقریباََ تمام سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ شائد مستقبل قریب میں ان میں سے کوئی سپر ایپ بھی بن جائے۔