بجلی کی قلت کی وجہ سے کسی ملک میں معاشی بحران پیدا ہونے سے متعلق تو آپ نے یقیناََ سنا ہو گا لیکن ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں بجلی کی بہتات کی وجہ سے لاکھوں لوگ معاشی مسائل کا شکار ہو گئے۔
یہ ملک ہے سپین۔ جہاں2007ء میں سوشلسٹ حکومت نے کاربن کا اخراج روکنے کیلئے سولر انرجی پر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور اس پر سرمایہ کاری کرنے والوں کو سبسڈی دینے کا اعلان کیا۔
حکومت کی یہ آفر کافی پرکشش تھی۔ اس لیے ہزاروں خاندانوں نے ذاتی جمع پونجی یا بینکوں سے قرضے لے کر سولر انرجی میں سرمایہ کاری کر دی تاکہ مستقبل میں منافع کما سکیں۔
لیکن حکومت کے ایک فیصلے نے اس سکیم کو عوام کیلئے ڈرائونا خواب بنا دیا۔
اس تمہید سے تین پہلو نکلتے ہیں:
پہلا، جب کسی چیز کی بہتات ہو جائے تو کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
دوسرا: کسی بزنس ماڈل کیلئے سبسڈی پر انحصار کس قدر فائدہ مند ہے؟
تیسرا: سبسڈی پر اچانک پابندی جیسے فیصلے بیرونی سرمایہ کاروں کو کیسے متنفر کرتے ہیں؟
یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق 1990ء میں عالمی سطح پر شمسی توانائی سے بجلی کی کل پیداوار محض 0.4 ارب کلو واٹ آور تھی تاہم 2020ء تک یہ پیداوار 842 ارب کلو واٹ آور تک جا پہنچی۔ پھر بھی سولر انرجی عالمی ضرورت کا محض چار فیصد پورا کر رہی ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق اتنی بڑی مقدار میں سولر انرجی کی پیدوار کی وجہ سے سالانہ 860 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج روکنا ممکن ہو رہا ہے۔
چین سولر سے بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس کا سولر انرجی کی مجموعی عالمی پیداوار میں حصہ 32 فیصد ہے۔ اس کے بعد امریکا کا حصہ 16 فیصد، ویتنام 11.1 فیصد، جاپان 9 فیصد، بھارت 7 فیصد اور جرمنی کا حصہ 6 فیصد ہے۔
ان میں سے کوئی ملک بھی اپنی ضرورت سے زیادہ سولر انرجی پیدا نہیں کر رہا بلکہ بجلی پیدا کرنے کیلئے اِن تمام ممالک کا انحصار اَب بھی ہائیڈرو، تھرمل اور نیوکلئیر ذرائع پر ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کیا دنیا غذائی بحران کے دہانے پر ہے؟
سری لنکا معاشی بحران کا شکار کیوں ہوا؟
پانچ معاشی بحران جنہوں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
سب سے زیادہ سولر انرجی پیدا کرنے والے چین کی نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے مطابق مالیاتی اداروں اور بینکوں کے تعاون سے عوام اور کاروباروں کو ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات دے کر 2020ء تک ملک بھر میں 48 گیگاواٹ سے زائد صلاحیت کے سولر پاور پلانٹس لگائے گئے جن سے سولر انرجی کی مجموعی پیداوار 2 ہزار 536 گیگاواٹ تک جا پہنچی۔
تاہم یہ بجلی چین کی ضرورت سے زیادہ نہیں۔ اس لیے یہاں سپین والا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
یورپی یونین سولر انرجی کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ 2020ء تک یونین کی سولر انرجی کپیسٹی 138 گیگاواٹ تھی جو کہ گھریلو اور کمرشل استعمال کا تقریباََ 55 فیصد ہے۔ باقی بجلی دیگر ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔
کوئی بھی ملک سولر انرجی پر دو وجوہات کی بناء پر منتقل ہوتا ہے:
پہلی وجہ یہ کہ اس ملک کے پاس بجلی بنانے کے دیگر ذرائع نہ ہوں یا بہت مہنگے ہوں۔ جیسے کہ پاکستان بجلی بنانے کیلئے مہنگا کوئلہ اور تیل درآمد کرتا ہے اور اس طرح پیدا ہونے والی بجلی حکومت اور عوام کو کافی مہنگی پڑتی ہے۔
پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں حکومتوں کی توجہ ایسے اقدمات کی بجائے سیاسی اور مالی فوائد والے پروجیکٹس پر زیادہ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چند سو میگاواٹ کے قائداعظم سولر پارک سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
دوسری وجہ یہ کہ کسی ملک میں کاربن کا اخراج بہت زیادہ ہو اور اس وجہ سے دنیا اس پر دبائو ڈال رہی ہو۔
2015ء میں چین بھی اسی عالمی دبائو کی وجہ سے سولر پر منتقل ہوا، چین نے کوئلے پر چلنے والے سینکڑوں پاور پلانٹس پاکستان، سری لنکا اور کینیا جیسے ملکوں کو اونے پونے داموں فروخت کیے اور خود کلین انرجی کی طرف چلا گیا۔
سپین کا کیس بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ دراصل 2007ء میں یورپی یونین نے سپین حکومت پر دبائو ڈالا کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔
سپین کی اُس وقت کی حکومت نے شہریوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سولر انرجی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں، حکومت انہیں ناصرف سبسڈی دے گی بلکہ ان کی سرپَلس بجلی مناسب قیمت پر خریدے گی بھی۔
عوام نے حکومت کی آفر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور تین ہی سالوں میں صورت حال یہ ہو گئی کہ لوگوں نے ذاتی جمع پونجی یا بینکوں سے قرضے لے کر چھت، صحن یا لان جہاں بھی سورج کی روشنی میسر تھی وہاں کچھ سولر پینلز جوڑ کر چھوٹا موٹا بجلی گھر لگا لیا۔
نتیجتاََ بجلی کی پیداوار حکومت کے تخمینے سے 9 گنا زیادہ ہو گئی۔ یہاں طلب اور رسد کے علاوہ پیسوں کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا۔
اتنی زیادہ سرپلس بجلی خریدنے کیلئے حکومت کے پاس پیسے ہی نہیں تھے تو اس نے اچانک سبسڈی روکنے اور عوام سے بجلی نہ خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔
حکومت کے اس فیصلے سے تقریباََ 62 ہزار خاندانوں کی زندگیوں میں اندھیرا چھا گیا جنہوں نے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھ کر سرمایہ کاری کی تھی اور سولر انرجی کو روزگار کا ذریعہ بنا لیا تھا۔
اب انہیں اپنے واجبات خود ادا کرنا تھے اور بجلی خریدنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
حالانکہ عوام کا خیال تھا کہ وہ سولر انرجی پیدا کرکے اپنی حکومت کی مدد کر رہے ہیں لیکن سبسڈی روکے جانے کے بعد کئی خاندانوں کو اپنے گھر بیچ کر بینکوں کو ادائیگیاں کرنا پڑیں کیونکہ حکومت خریدی گئی بجلی کی قیمت تو درکنار انہیں سولر پینلز پر کی گئی سرمایہ کاری کی رقم 15 سال بعد بھی بھی واپس نہیں کر سکی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز کی بہتات اور بزنس ماڈل کیلئے سبسڈی پر انحصار کس قدر مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
سبسڈی پر انحصار کے حوالے سے پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے عالمی مارکیٹ میں مہنگا ہونے کے باوجود ٹیکس ختم کرکے اور سبسڈی دے کر تیل کی قیمتیں قدرے کم رکھیں لیکن اتحادی حکومت نے آتے ہی سبسڈی ختم کر دی اور پٹرولیم لیوی عائد کرکے قیمتیں آسمان پر پہنچا دیں حالانکہ اس دوران عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں گر چکی ہیں۔
حکومتوں کی جانب سے پالیسیوں میں عدم تسلسل جیسے معاملات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو سب سے زیادہ ٹھیس پہنچتا ہے۔
بیرونی سرمایہ کار کسی ملک میں کاروبار کیلئے آسان ماحول اور ٹیکس مراعات کی وجہ سے ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
لیکن اگر حکومت کی پالیسی میں تسلسل نہ ہو، دن کو ایک پالیسی ہو اور رات کو دوسری پالیسی لاگو کر دی جائے تو ایسے ملک میں بیرونی سرمایہ کار بھی سرمایہ لگاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں بلکہ مقامی سرمایہ کار بھی اپنے ملک میں سرمایہ لگانے سے ڈرتے ہیں اور دوسرے ملکوں میں جہاں کاروباری ماحول سازگار ہو، وہاں فیکٹریاں قائم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔